ریحان کوثر کی 100 لفظوں کی 100 کہانیاں: ایک تاثر
محمد علیم اسماعیل،
مہاراشٹر
محمد علیم اسماعیل،
مہاراشٹر
ریحان کوثر شہرِ کامٹی (ضلع: ناگپور) سے تعلق رکھتے ہیں اور بڑے ہی فعال ادیب ہیں۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار، افسانچہ نگار، مضمون نگار، تجزیہ نگار اور رسالہ ’’الفاظِ ہند‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔
ان کی تازہ کتاب ’’100 لفظوں کی 100 کہانیاں‘‘ سنہ 2021 میں منظر عام پر آئی۔ جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کتاب میں سو لفظوں میں لکھے گئے سو افسانچے شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب بھی سو لفظوں میں لکھا گیا ہے اور شکریہ بھی سو لفظوں میں ادا کیا گیا ہے۔ سو لفظوں کی کہانیوں کے حوالے سے ریحان کوثر اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف افسانوں پر کیے گئے ان کے تجزیوں نے بھی پڑھنے لکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان میں سو لفظوں کی کہانیوں کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔ پاکستان میں مبشر علی زیدی کی سو لفظوں کی کہانیوں کے ایک سے زائد مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ریحان کوثر کی اس کتاب میں شامل افسانچے متاثر کرتے ہیں۔ کچھ افسانچے تو اتنے زبردست ہے کہ اختتام پر ہم ششدر رہ جاتے ہیں۔ کتاب کا پہلا افسانچہ ’’جنت‘‘ اور ساتوں افسانچہ ’’پیارا کتا‘‘ ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ریحان کوثر کئی کتابوں کے خالق ہیں۔ وہ اپنے ادبی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں سستی نہیں کرتے۔ یکے بعد دیگرے ان کی کتابیں منظر عام پر آ رہی ہیں اور رسالہ ’’الفاظ ہند‘‘ بھی پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے ایک ریحان کوثر نہیں آٹھ/دس ریحان کوثر ایک ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا افسانچہ ’’جنت‘‘ اور افسانچہ ’’پیارا کتا‘‘ کی۔ دونوں افسانچے سماج کے اس چہرے کو دکھاتے ہیں جسے سماج چھپانا چاہتا ہے۔ ان دونوں کہانیوں کی خصوصیات یہ ہے کہ اختتام پر قاری کو ایک زوردار جھٹکا لگتا ہے۔ کہانیاں کاغذ پر ختم ہوتی ہیں اور قاری کے ذہن میں شروع ہو جاتی ہیں۔ قاری دیر تک سوچتا رہ جاتا ہے۔ ان دونوں کہانیوں کے علاوہ کتاب میں شامل دیگر افسانچے: چھوٹو، روہن اور گاندھی، وراثت، گُل کا اخبار، تیراک، لیڈیز ڈاکٹر، رسم اجرا، تصور، بھارت نگر کا تالاب، پلاننگ، وغیرہ بھی متاثر کرتے ہیں۔
افسانچہ تخلیق کرنے میں ریحان کوثر میں اپنے اوپر سو لفظوں کی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس پابندی کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود ہی اپنا امتحان لے رہے ہیں۔ ہر کہانی کو سو لفظوں میں لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریحان کوثر کافی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ لیکن سو لفظوں کے حساب سے چند کہانیوں کے متعلق یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کہانیوں پر زیادہ الفاظ خرچ کر دیے گئے ہیں۔ وہاں کم الفاظ میں موثر طریقے سے کہانی بیان کی جا سکتی تھی۔
ریحان کوثر نے اپنی کہانیوں کے موضوعات اپنے گرد و پیش کی زندگی سے منتخب کیے ہیں۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں سیاسی، معاشرتی اور مذہبی برائیوں پر مصلحانہ طنز کیا ہے۔ ان کہانیوں کے ذریعے ریحان کوثر کے مشاہدے میں باریکی، فکر میں گہرائی اور اظہار میں ندرت کا پتا چلتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان میں سو لفظوں کی کہانیوں کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔ پاکستان میں مبشر علی زیدی کی سو لفظوں کی کہانیوں کے ایک سے زائد مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ریحان کوثر کی اس کتاب میں شامل افسانچے متاثر کرتے ہیں۔ کچھ افسانچے تو اتنے زبردست ہے کہ اختتام پر ہم ششدر رہ جاتے ہیں۔ کتاب کا پہلا افسانچہ ’’جنت‘‘ اور ساتوں افسانچہ ’’پیارا کتا‘‘ ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ریحان کوثر کئی کتابوں کے خالق ہیں۔ وہ اپنے ادبی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں سستی نہیں کرتے۔ یکے بعد دیگرے ان کی کتابیں منظر عام پر آ رہی ہیں اور رسالہ ’’الفاظ ہند‘‘ بھی پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے ایک ریحان کوثر نہیں آٹھ/دس ریحان کوثر ایک ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا افسانچہ ’’جنت‘‘ اور افسانچہ ’’پیارا کتا‘‘ کی۔ دونوں افسانچے سماج کے اس چہرے کو دکھاتے ہیں جسے سماج چھپانا چاہتا ہے۔ ان دونوں کہانیوں کی خصوصیات یہ ہے کہ اختتام پر قاری کو ایک زوردار جھٹکا لگتا ہے۔ کہانیاں کاغذ پر ختم ہوتی ہیں اور قاری کے ذہن میں شروع ہو جاتی ہیں۔ قاری دیر تک سوچتا رہ جاتا ہے۔ ان دونوں کہانیوں کے علاوہ کتاب میں شامل دیگر افسانچے: چھوٹو، روہن اور گاندھی، وراثت، گُل کا اخبار، تیراک، لیڈیز ڈاکٹر، رسم اجرا، تصور، بھارت نگر کا تالاب، پلاننگ، وغیرہ بھی متاثر کرتے ہیں۔
افسانچہ تخلیق کرنے میں ریحان کوثر میں اپنے اوپر سو لفظوں کی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس پابندی کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود ہی اپنا امتحان لے رہے ہیں۔ ہر کہانی کو سو لفظوں میں لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریحان کوثر کافی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ لیکن سو لفظوں کے حساب سے چند کہانیوں کے متعلق یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کہانیوں پر زیادہ الفاظ خرچ کر دیے گئے ہیں۔ وہاں کم الفاظ میں موثر طریقے سے کہانی بیان کی جا سکتی تھی۔
ریحان کوثر نے اپنی کہانیوں کے موضوعات اپنے گرد و پیش کی زندگی سے منتخب کیے ہیں۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں سیاسی، معاشرتی اور مذہبی برائیوں پر مصلحانہ طنز کیا ہے۔ ان کہانیوں کے ذریعے ریحان کوثر کے مشاہدے میں باریکی، فکر میں گہرائی اور اظہار میں ندرت کا پتا چلتا ہے۔
نام کتاب : 100 لفظوں کی 100 کہانیاں
مصنف : ریحان کوثر
ناشر: الفاظ پبلی کیشن، پھٹانا اولی کامٹی441001ضلع ناگپور (مہاراشٹر )
موبائل:07721877941
قیمت: 100روپے
صفحات: 128
تعداد: 500
مطبع: ودربھ ہندی اردو پریس، کامٹی موبائل:09021132527
سن اشاعت: 2021ء
رابطہ/پتہ : کاشانۂ کوثر، ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی، کامٹی441001ضلع ناگپور (مہاراشٹر )
موبائل نمبر: 9326669893
ملنے کا پتہ:
اشرف نیوز ایجنسی اینڈ بک ڈپو، گجری بازار، کامٹی441001ضلع ناگپور (مہاراشٹر)
الفاظ پبلی کیشن اینڈ ودربھ ہندی اردو پریس، املی باغ، کامٹی441001ضلع ناگپور(مہاراشٹر)
ریحان کوثر، کاشانۂ کوثر، ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی، کامٹی441001ضلع ناگپور (مہاراشٹر)
0 Comments