بُھٹّہ
✒️ریحان کوثر
”میرے یار۔۔۔ شہریار! تجھے پتا بھی ہے! یہ پیار، عشق اور محبت کس چڑیا کا نام ہے؟“
”بُھٹہ“
”اچھا تو پیار عشق اور محبت کا مطلب بُھٹہ ہے؟“
”سلیم ابن کلیم! یہ بھنا ہوا بُھٹہ لے میرے باپ! منہ بند کر کے کھا پلیزززز! خدا کے واسطے میرا دماغ مت کھا۔ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں!“
”میں تو منہ کھول کر کھاؤں گا۔۔۔ کیا کر لے گا!“
”اچھا بھئی تیری مرضی!!!“
” شہریار! میرے یار۔۔۔ یہ بھی کیا عجیب اتفاق ہے کہ مال روڈ کا ’بُھٹہ کارنر‘ جہاں تم دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔۔۔ یہیں اِسی جگہ تمھارا اور فرح کا بریک اپ بھی ہو گیا۔۔۔ بیچاری وہ اپنی اسکوٹی سے روتی ہوئی روانہ ہوئی۔ آج اس رشتے کا نازک دھاگا بھی ٹوٹ گیا جس کا واحد گواہ میں تھا میں! بڑا ہیرو بننے کا شوق چرایا ہے صاحب کو۔۔۔ خود کو ہیرو اور اپنی زندگی کو فلم سمجھ بیٹھا ہے۔ بیچاری کو رلا دیا۔“
”بس کر سلیم بس کر بھائی!“
”میرے یار شہریار ایسا کوئی کرتا ہے؟“
”چپ ہو جا میرے باپ!“
”تم نے لیموں کے آدھے ٹکڑے سے ’بریک اپ‘ کا فیصلہ کر لیا کہ بتاؤ کس ہاتھ میں لیموں ہے۔۔۔ لیموں نکل آیا تو بریک اپ! واہ جی واہ! اور اس بیچاری فرح کو چھو کر چننے کے لیے کہا۔ اس نے تمھارا سیدھا ہاتھ چھوا اور اس میں لیموں کا ٹکڑا نکل آیا۔۔۔ اور۔۔۔ اور ہو گیا فیصلہ؟ مائی فٹ! کون کرتا ہے بھائی اس طرح؟ وہ تو تمھارے ساتھ اپنا گھر! یہاں تک کہ یہ شہر چھوڑنے کے لیے تیار تھی! مگر تم کیا جانو محبت کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔۔۔ درد کیا ہوتا ہے۔۔۔ تکلیف کیا ہوتی ہے!!!“
”چل بس کر سلیم، زیادہ ’لو گرو‘ بننے کی کوشش مت کر میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔۔۔ اور سن وہ بزدل ہے بزدل۔۔۔ میں نے تو اپنے گھر والوں کو سمجھا بجھا کر بھیج دیا تھا اس کے گھر۔۔۔ لیکن جب امی نے پوچھا کہ تم دونوں کے درمیان کچھ ہے تو وہ صاف مکر گئی تھی۔۔۔ سمجھا؟؟؟؟ اور رشتے کے لیے اس کے گھر والوں نے صاف منع کر دیا۔“
”او تری! مطلب وہ لو میرج کو ارینج میرج میں کنورٹ کرنا چاہتی تھی؟“
”سلیم اس طرح ٹکٹکی باندھے کیوں کھڑا ہے بُھٹّہ کھا بُھٹّہ۔۔۔اور ہاں! یہ لے لیموں کا دوسرا حصہ! وہ رہا نمک۔۔۔ اور یہ رہا لیموں! بُھٹے پر لگا اور کھا۔۔۔ زیادہ مزہ آئے گا۔۔۔ اور ہاں ایک بات اور سن دراصل اس وقت میرے دونوں ہاتھوں میں لیموں تھا۔۔۔!“
0 Comments