قُرب کی خاطر
ڈاکٹر انیس رشید خان
امراؤتی (مہاراشٹر)
جب سے ابو قربانی کے لئے ایک بکرا لائے تب سے ساجد کی دنیا ہی بدل گئی۔ اُس کے دوستوں میں وہ بکرا بھی شامل ہوگیا تھا۔ وہ بکرے کو نہلاتا، دھلاتا اورشام کے وقت اپنے دوستوں کے ساتھ محلے کی سیر کرواتا ۔ اُسے بکرے سے بہت محبت ہوگئی تھی۔
اُس وقت دوپہر کے دو بج رہے تھے ۔ انٹرنیشنل انگلش اسکول کی بس گلی کے نکڑ پر رکی اور بارہ سالہ ساجد اسکول بیگ پیٹھ پر سنبھالتے ہوئے نیچے اُترا۔ اُس کے چہرے پر غصہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر میں داخل ہوا ۔ ٹیبل پر اسکول بیگ کو پٹخا اور تیزی سے واش روم کی طرف چلا گیا۔ امی اور دادا جان نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
"اسے کیا ہوا ؟ ۔۔۔بہت غصہ میں دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔" داداجان نے فکرمند لہجہ میں کہا۔
"ہاں۔۔روزانہ اسکول سے آتے ہی پہلے بکرے کے پاس جاتا تھا ۔۔۔ آج پتہ نہیں کیا ہوگیا؟ " امی بھی فکر مند ہورہی تھیں۔
کچھ دیر بعد ساجد واش روم سے باہر آیا ، سیدھے دادا جان کے قریب آکر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ وہ اپنے امی ابو کے مقابلے ، دادا جان کے زیادہ قریب تھا۔
"کیا ہوگیاہے ؟ ۔۔۔اتنے غصے میں کیوں ہو۔۔۔ اسکول میں جھگڑا کرکے آئے ہو کیا ۔۔۔؟" امی نے فکر مند لہجے میں پوچھا۔
"نہیں ۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔۔" ساجد نےبے زاری سے جواب دیا۔
امی کچھ اور کہنا چاہ رہی تھیں لیکن دادا جان نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا ۔ وہ خاموش ہو گئیں۔ دادا جان نے ساجد کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور آہستہ سے پوچھا ۔۔۔"کیا بات ہے بیٹا۔۔۔مجھے بھی نہیں بتاؤ گے ۔۔۔"
ساجد نے آنکھیں کھولیں ۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
"دادا جان ! ۔۔۔ کیا ہم مسلمان ۔۔۔سب ۔۔۔ بہت ظالم لوگ ہوتے ہیں؟ ۔۔" آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے۔ داداجان اور امی دونوں بھی اس سوال پر چونک پڑے۔
"نہیں بیٹا ۔۔۔بالکل بھی نہیں ۔۔۔ہم تو رحم دل قوم ہیں ۔۔ سب پر رحم کرنے والے ۔۔ " دادا جان نے سمجھایا۔
"دادا جان ۔۔۔ اگر ہم رحم دل ہیں تو پھر ۔۔۔ اُس معصوم بکرے کا قتل کیوں کرتے ہیں ؟ " اس نے آنگن میں بندھے بکرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا۔ دادا جان نے اُسے حیرت سے دیکھا تھا۔
"نہیں بیٹا ۔۔۔اُسے قتل نہیں کہتے ۔۔۔ بلکہ ذبح کرنا کہتے ہیں ۔ ۔۔ یہ تو ہم لوگ اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرنے کے لئے قربانی کرتے ہیں ۔۔۔" انہوں نے سمجھایا۔
"دادا جان ۔۔آج میری کلاس کے سبھی لڑکے میرا مذاق اُڑا رہے تھے۔۔۔ جب میں نے اُن کو بتایا کہ ہم نے بھی ایک بکرا قربانی کے لئے لیا ہے تب وہ سب کہنے لگے ۔۔۔ تم مسلمان لوگ بہت ظالم ہوتے ہو۔۔ اپنی عید کی خوشی منانے کے لئے ایک معصوم جانور کو قتل کرتے ہو۔۔۔وہ لوگ اور بھی نا جانے کیاکیا بک رہے تھے ۔۔۔" ساجد نے آنسو پوچھتے ہوئے ساری بات بتائی۔
"اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔ ! " دادا جان نے گہری سانس لی۔
"ساجد تمہاری کلاس میں کتنے مسلم بچے ہیں ؟ ۔۔"
"صرف تین ہیں ۔۔۔ اُن میں سے ایک نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑالی کہ ہمارے یہاں تو قربانی ہوتی ہی نہیں ۔۔۔ دوسرے نے یہ کہا کہ میں تو کبھی گوشت کھاتا ہی نہیں ہوں ۔۔۔صرف اکیلا میں ہی پھنس گیا تھا ۔۔۔" ساجد نے برے برے منہ بناتے ہوئے کہا ۔ داداجان اسے غور سے دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے آہستہ سے کہا۔۔" دیکھو بیٹا ۔۔تمہاری ساری پریشانی میں دور کیئے دیتا ہوں ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔چلو پہلے اُٹھو ۔۔۔کچھ کھاپی لو ۔۔۔پھر میں تمہیں ساری بات سمجھاؤں گا۔۔۔"
"ٹھیک ہے دادا جان ۔۔" کہتے ہوئے وہ امی کے ساتھ اندر چلاگیا۔
کچھ دیر بعد وہ فریش ہوکر واپس آیا ۔ "ہاں داداجان ۔۔۔اب بتائیے ۔۔۔کیا بتانے والے تھے ۔۔" ساجد نےاُن کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
"بیٹا ساجد ۔۔۔کیا تم جانتے ہو خلیل اللہ ۔۔۔یعنی اللہ کا دوست ۔۔۔یہ خطاب کس کا ہے ؟"
ساجد نے دماغ پر زوردیا اور پھر کہا ۔۔"اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں کا ۔۔۔کیونکہ وہ سب اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔۔۔" داداجان مسکرادیئے ۔۔۔ انہوں نے لاڈ سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور پھر کہا۔
"یہ تم صحیح کہہ رہے ہو کہ سارے ہی انبیاء اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں ۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ نے خلیل اللہ کا خطاب جانتے ہو کس کو دیا تھا ؟۔۔۔ حضرت ابراہیم ؑ کو ۔۔۔۔"
"اچھا؟ ۔۔۔۔ ایسا کیوں ۔۔؟ "اس نے پوچھا۔
"دراصل بیٹا حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کی تمام آزمائشوں کو نہایت محبت اور یقین کے ساتھ پورا کیا تھا ۔۔۔ اللہ کی خاطر ان کواپنے ملک سے نکلنا پڑا ۔۔۔اللہ کی خاطر اُن کو آگ میں ڈالا گیا ۔۔۔لیکن اُن کو اللہ تعالیٰ پر اتنا زیادہ یقین تھا کہ وہ ہر آزمائش میں کامیاب رہے۔۔" دادا جان رکے۔ ساجد پوری توجہ سے سن رہا تھا۔
"جب ابراہیم ؑ کی بیوی حضرت ہاجرہؑ کو بیٹا اسمائیل ؑ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کی آزمائش لی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا کہ دونوں کو یعنی ماں اور بیٹے کو مکہ میں وہاں چھوڑ آؤ جہاں اُس زمانے میں، ۔۔۔ انسان تو کیا ۔۔۔ جانور بھی نہیں رہتے تھے۔۔۔کیونکہ وہاں پانی ہی نہیں تھا۔۔۔صرف بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں تھیں۔۔۔" داداجان خاموش ہوئے تو ساجد نے فوراً سوال کیا۔
"تو کیا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیوی اور بیٹے کو وہاں چھوڑ دیا تھا۔۔۔؟ "
"ہاں بیٹا ۔۔۔ اور جانتے ہو ۔۔۔حضرت ہاجرہؑ کو بھی اللہ تعالیٰ پر پورا یقین تھا ۔۔۔اسی لئے انہوں نے کوئی پریشانی کا اظہار نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کے لئے کافی ہے۔۔۔ " دادا جان نے ایک گہری سانس لی ۔ پھر آگے کہنے لگے۔
"حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت ہاجرہ ؑ اور ننھے سے اسماعیل ؑ کو اُس بنجر علاقے میں تنہاء چھوڑ دیا اور واپس چلے گئے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔"
"جب ننھے اسماعیل ؑ کو بھوک پیاس لگی تب وہ رونے لگے۔۔۔ان کے لئے پانی کا انتظام کرنے کیلئے حضرت ہاجرہ ؑ اِدھر اُدھر دوڑنے لگیں ۔ وہاں دو پہاڑیاں تھیں جنکا نام صفا اور مروہ ہے ۔۔۔حضرت ہاجرہؑ اُن پتھروں میں سے دوڑتے ہوئے پہلی پہاڑی پر چڑھ گئیں ۔۔۔ وہاں پانی کی تلاش کرنے لگیں ۔۔۔جب کچھ نہیں ملا تو ۔۔۔۔ واپس دوڑتے ہوئے دوسری پہاڑی پر چڑھ گئیں ۔۔۔ لیکن وہاں بھی کچھ نہیں ملا ۔۔۔۔ تو پھر واپس دل میں امید لئے پہلی پہاڑی کی طرف دوڑنے لگیں ۔۔۔ " داداجان کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ ساجد کی آنکھوں میں حضرت ہاجرہؑ کے لئے ڈھیروں محبت صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے بے قرار ہوتے ہوئے پوچھا ۔
"کیا حضرت ہاجرہؑ کو ۔۔۔وہاں پانی ملا۔۔۔؟ "
"نہیں بیٹے ۔۔۔وہ ان پہاڑیوں کے درمیان اسی طرح اپنے بچے کی زندگی بچانے کیلئے دوڑتی رہیں ۔۔۔اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتی رہیں ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو اُن پر بہت پیار آیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُس جگہ سے پانی کا چشمہ جاری کردیا جہاں ننھے اسماعیل ؑ اپنی ایڈیاں رگڑ رہے تھے۔۔۔جانتے ہو ۔۔۔یہ وہی پانی ہے جسے زم زم کہتے ہیں ۔۔۔۔"
"اوہ۔۔۔اچھا وہی زم زم کا پانی ناں ۔۔۔جو آپ حج سے واپس آتے وقت لائے تھے۔۔۔" ساجد نے خوشی خوشی پوچھا۔
"ہاں ۔۔بیٹا ۔۔۔یہ وہی زم زم کا پانی ہے ۔۔۔دیکھا تم نے یہ اللہ تعالیٰ کا کرشمہ ہے ۔۔۔جہاں پتھروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔وہاں اللہ تعالیٰ نے پانی کا چشمہ جاری کردیا ۔۔۔اور وہ ۔۔ بھی قیامت تک کے لئے ۔۔۔۔" دادا جان کی آنکھیں ایمان کی روشنی سے چمک رہی تھیں۔ ساجد غور سے اُنہیں دیکھ رہا تھا۔
"پھر آگے کیا ہوا دادا جان ۔۔۔" اس نے پوچھا۔
"بیٹا اللہ تعالیٰ کو حضرت ہاجرہؑ کا اُن دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا اتنا پسند آیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام حاجیوں کے لئے اسے فرض کردیا۔ صفا اور مروہ کی اُن پہاڑیوں کے درمیان دوڑنے کو سعی کہتے ہیں ۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کے لئے سعی کرنا واجب ہوتا ہے ۔۔۔"
دادا جان اُسے غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔
"جب حضرت اسماعیل ؑ بڑے ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر حضرت ابراہیم ؑ کی آزمائش لی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل ؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کردیں ۔۔۔یعنی اُن کو ذبح کردیں ۔۔۔۔" دادا جان نے رک کر اُسے دیکھا۔
"کیا؟ ۔۔۔اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا اللہ تعالیٰ نے ۔۔۔؟ " ساجد حیران پریشان ہوگیا ۔
"ہاں بیٹا۔۔۔اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت ابراہیمؑ کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کا جذبہ کتنا ہے ۔۔۔" دادا جان نے کہا۔
"تو کیا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو ذبح کردیا ۔۔۔؟ " ساجد نے خوف زدہ انداز میں پوچھا۔
"ہاں بیٹا! ۔۔ ۔۔ ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کو لے کر مکہ کے قریب منیٰ نام کے علاقے میں گئے اور وہاں جاکر انہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تاکہ اُنہیں اپنے بیٹے پر رحم نا آجائے۔۔۔پھر اُنہوں نے جیسے ہی اپنے بیٹے کے گلے پر چھری کو چلانا چاہا ۔۔اللہ تعالیٰ نے ایک کرشمہ کے طور پر حضرت اسماعیل ؑ کو وہاں سے ہٹا دیا اور اُن کی جگہ ایک دنبے کا ذبح ہوگیا ۔۔۔ جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی آنکھوں کی پٹی کھولی تب انہوں نے دیکھا کہ اُن کا بیٹا تو کھڑا مسکرارہا ہے اور ایک دنبہ ذبح ہوگیا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیمؑ کی یہ قربانی اتنی زیادہ پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو قیامت تک آنے والے تمام ذی حیثیت مسلمانوں کے لئے فرض کر دیا۔۔ جانتے ہو جو بھی انسان حج کے لئے جاتا ہے اُسے منیٰ نام کے اُس علاقے میں قربانی کرنا واجب ہوتی ہے ۔۔۔ " دادا جان رکے ۔
"اچھا تو یہ بات ہے ۔۔" ساجد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔
"ہاں بیٹا ! ۔۔۔قربانی میں ہم اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرنے کے لئے جانور قربان کرتے ہیں ۔۔۔جانتے ہو ہمارا اس طرح سے جانور کو ذبح کرنا اُن جانوروں پر کوئی ظلم نہیں ہے ۔۔۔کیونکہ اُن جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے غذا بنایا ہوا ہے ۔۔۔۔ اچھا ایک بات بتاؤ ۔۔۔ تم نے دیکھا تو ہوگا کہ جو جانور اپنی فطری موت مرجا تے ہیں تو لوگ اُن کی لاش کا کیا کرتے ہیں۔۔۔"
"ہاں دادا جان ۔۔۔ وہ وہاں ۔۔۔ شہر کے باہر روڈ کے کنارے لیجاکر پھینک دیتے ہیں ۔۔۔وہاں کتے اُن لاشوں کو چیر پھاڑ کردیتے ہیں۔۔۔چاروں طرف اُن کی بدبو پھیلی رہتی ہے ۔۔۔ " ساجد نے برا سا منہ بنا کر ناک کو پکڑتے ہوئے جلدی سے کہا۔
دادا جان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ "کیا یہ بات زیادہ مناسب نہیں ہے کہ جن جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کھانے کے لئے حلال کیا ہے، اُن کو اللہ کے نام ذبح کیا جائے اور غریب ضرورت مند انسانوں کواُن کے گوشت سے بنا بہترین کھانا کھلایا جائے۔۔۔" داداجان نے غور سے اُسے دیکھا۔۔ ساجد کی آنکھوں میں چمک آگئی ۔ اُسے اپنے تمام سوالوں کے بہترین جواب مل گئے تھے۔۔۔اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔"دادا جان ۔۔۔اب آپ دیکھئے ۔۔۔میں کل اسکول جاکر اُن سب کے منہ کیسے بند کرتا ہوں۔۔۔۔"
دادا جان مسکرادیئے اور اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔۔"بیٹا! ہمیں اُن لوگوں کے منہ بند نہیں کرنا ہے ۔۔۔ بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کھولیں اور کچھ بولیں۔۔۔جب بات چیت ہوگی تب ہی تو غلط فہمیاں دور ہوں گی ۔۔۔" دادا جان نےکچھ سوچتے ہوئے کہا۔۔۔ساجد نے ایسے سر ہلایا جیسے اُسے یہ بات سمجھ آگئی ہو!
"ٹھیک ہے دادا جان ۔۔۔" ساجد نے کہا اور دوڑتے ہوئے بکرے کے پاس چلا گیا۔ بکرے کو شام کی سیر کروانے کا وقت ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر انیس رشید خان، امراؤتی
0 Comments