آگ(مائیکرو فیکشن)
محمد علی صدیقی
دن کا وقت تھا۔ ہوا چل رہی تھی مگر دھوپ غائب تھی۔ سفید بادلوں کے چھوٹے بڑے ٹکڑے آہستہ آہستہ تیرتے ہوئے ایک طرف غائب ہوتے جا رہے تھے اور دوسری طرف سے سیاہ بادلوں کا ایک بڑا سا ٹکڑا آہستہ آہستہ نمودار ہو کر آسمان میں پھیلتا چلا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی دور سے بادلوں کے گرجنے کی ہلکی آوازیں بھی چلی آتی تھیں۔ ظہر کی نماز میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ میں گھر سے نکلا اور وقت گزاری کے لئے چائے کی ایک چھوٹی سی دکان پر چلا گیا۔ وہ گاوں کی ایک عام سی دکان تھی۔ چائے والا کوئلوں کو سلگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا
”ایک چائے بنانا گوپال۔۔۔“
”بناتا ہوں صاحب، چولہا تیار ہو جائے۔۔۔“ اس نے چنگاری کو ہوا دیتے ہوئے کہا اور چائے کا سامان درست کرنے میں لگ گیا۔
میں ایک طرف کھڑا ہو کر ہوا کا لطف لینے لگا۔ کچھ پر جوش آوازیں ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی قریب کی چناوی ریلی سے آ رہی تھیں جہاں ایک شعلہ بیان مقرر مسلسل مجمع کے خون میں گرمی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور مجمع پر جوش نعروں سے اس کا ساتھ دے رہا تھا۔ وہ اتنا اچھا مقرر تھا کہ اپنی باتوں سے مجمع پر جادو کر دیتا تھا۔ مجمع ہزاروں کا ہو یا لاکھوں کا وہ ایک ایک کی رگوں میں پگھلے ہوئے انگارے بھر دیتا تھا اور مجمع پر جوش نعروں سے اس کی ایک ایک بات پر اپنی رضامندی کا اظہار کر تا تھا۔ اس کا بھاشن مسلسل چل رہا تھا اور نعروں کی پر جوش آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔
اچانک موسم خراب ہونے لگا۔ میں نے چائے والے کی طرف دیکھا۔ وہ چیزوں کو ترتیب سے رکھنے میں مصروف تھا۔ اچانک ہوا میں تیزی آ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چولہے کا سارا کوئلہ انگاروں میں تبدیل ہو گیا اور شعلے اٹھنے لگے۔ یہ دیکھتے ہی چائے والے نے لوہے کی ایک چھوٹی سلاخ اٹھائی اور اسے چولہے کے منھ میں ڈال کر انگاروں کو نیچے گرانے لگا۔ سارے انگارے گر گئے تو اس نے پانی ڈال کر انھیں پوری طرح بجھا دیا۔
”یہ کیا گوپال۔۔۔!! تمہاری دکانداری کا کیا ہو گا۔۔۔” میں نے اس سے از راہ ہمدردی پوچھا تو اس نے سلاخ ایک طرف رکھتے ہوئے متانت سے جواب دیا
”ہوا تیز تھی صاحب۔۔۔۔ آگ بھڑک سکتی تھی۔“
0 Comments