Ticker

6/recent/ticker-posts

کورونا کے رنگ بنام رونق جمال ✍️نسیم سعید

کورونا کے رنگ بنام رونق جمال
نسیم سعید
ایم ۔ایم ۔ربانی ہائی اسکول کامٹی
7798274366
کورونا کے رنگ بنام رونق جمال ✍️نسیم سعید
جنوری ۲۰۲۰ کی شروعات سے ہی دُنیا عالمی وبا کورونا ( کووڈ ۔۱۹) کی زد میں ہے۔ اس دوران دُنیا نے کورونا کے مختلف رنگ کو دیکھا، بغور مطالعہ کیا اور اُس کے طویل اثرات سے واقف ہوئے۔ جہاں سائنس دانوں کے لیے ایک نیا معرکہ بصورت’ کورونا کا دفع اور اُس کی تشخیص و علاج‘ آراہوا وہیں ادبی دُنیا کے لیے بھی بطور طنز و مزاح، تنقید نگاری، نثروشاعری کا ایک طویل و عریض میدان میسرہوا ۔ کارخانۂ قدرت اور اس کا نظام کچھ اس طرح تشکیل شدہ ہے کہ ہر تصویر، تصور،فلسفے، حکمت، دانائی، کاریگری اور تخلیقیت کے کئی پہلو میسر ہوتے ہیں۔ اب انسان اُسے جس نظریے سے بھی اپنے حق میں بہتر سمجھے اور اُس کی وحدانیت کے اقرار کے لیے مناسب راہ اختیار کرے، اِ سی مقام پر انسان بصورت مخلوق اپنے رب کی ربوبیت وحدانیت کی شناخت حاصل کرلیتا ہے۔
کورونا عہد میں اُردو ادبی دُنیا کی ایسی ہی منفرد، نرالی، معتبر اور مشہور و معروف شخصیت رونق جمال صاحب ہیں،جنہوں نے کورونا پر مشتمل اپنی انوکھی ادبی تخلیق ’ کورونا کے رنگ‘ کو منظر عام پر عیاں کرنے کی کامیاب جدوجہد کی ہے۔ کورونا جیسی عالمی وبانے انسانی زندگی کو یکسر بدل کررکھ دیا ہے۔ انسان کی بداعمالی کے نتیجے میں عذاب الہیٰ کا ظہور پذیر ہونا یقینی ہے۔ حالات کے تناظر کے مدّ نظر انسان اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتا ہے تو بدبختی کا وائرس اُس کی تباہی کا منتظر ہے۔
ہندوستان کے نقشے پر ہر شعبے میں ترقی اور کامیابی کا جھنڈا بلند کرنے والی نوخیر ریاست چھتیس گڑھ سے تعلق رکھنے والے اُردو کے نامور ادیب رونق جمال صاحب کسی تعارف کے مختاج نہیں ہیں۔ بلکہ اتنا ہی کہہ دوں توکافی ہوگا کہ ادبی دُنیا میں آپ خشک اور بنجر زمین کو بھی زرخیز کرنا جانتے ہیں۔ پہاڑوں اور چٹانو ں کو بھی تراش کر دریا کو روانی عطا کرتے ہیں۔
ناگپور یونیورسٹی سے اُردو اور فارسی میں ایم ۔اے کی سند حاصل کرنے والے رونق جمال کا مکمل نام غلام احمد جمال ہے۔ آپ ۲۵ مئی ۱۹۵۴ کو مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع میں پیداہوئے۔ مگر فی الحال ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع دُرگ کو اُردو کی مہک سے معطر کررہے ہیں۔ یقیناً آج ملک کے تعصب پسند ماحول میں اُردو زبان وادب کی جوت جلائے رکھنا آندھی میں چراغ روشن کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے پرُ اسرار ماحول میں اُردو جیسی ہم وطن زبان کی تہہ دل سے خدمات انجام دینا رونق جمال جیسے ادب نواز شخصیت کاہی کام ہے۔ جو مذہب و ملت کی پرواہ کئے بغیر قوم کی خدمت کے جذبے کے ماتحت مسلسل اپنی جستجوؤں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں ۔حاصل کردہ متعدد ایوارڈوں اور انعامات کی فہرست یقیناًموصوف کے متعلق میرے خیالات کی تردید کے لیے کافی ہے۔
آپ کو ترجمہ نگاری جیسے فن میں بھی مہارت حاصل ہے ہندی،مراٹھی اور تمل زبانوں میں موجود متعدد افسانوں کے اُردو ترجمے آپ کی فطری صلاحیت پر مہر ثبت کرتے ہیں۔فی الوقت تک افسانوں، ڈراموں، کہانیوں، مزاحیہ کہانیوں اوبچکانچوں پر مشتمل پندرہ مطبوعہ تصانیف سے عوام لطف اندوز ہو چکی ہے اور لگ بھگ دس مجموعے زیر ِ طبع بھی ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ۔ آپ کی کہانیاں، افسانے، انشائیے، خاکے، ڈرامے
اور مضامین ہندوستان کے متعدد مشہور و معروف رسالوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ فنونِ لطیفہ کی کئی سر گرمیاں آپ کی زندگی کی شناخت بنیں ہیں۔ ڈراموں اور چھتیس گڑھی فلموں میں کام کرنا اس کی دلیل ہے۔ کئی تنظیموں اور اداروں سے منسلک ہونا اُن کی سماجی خدمات کی دلچسپی کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ چھتیس گڑھ صوبے کی بال بھارتی کی ششم و ہفتم جماعت کے نصاب میں آپ کی کہانیاں اور ڈرامے شامل ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں آپ اکثر سنائی بھی دیتے ہیں اور دکھائی بھی دیتے ہیں۔
رونق جمال صاحب کی حالیہ تصنیف ’ کورونا کے رنگ ‘ افسانوں، کہانیوں، افسانچوں، بچکانچوں اور انشائیوں پر کورونا عہد کے حالات و واقعات، آپ بیتی، مشاہدات و نظریات پر مشتمل ایسے کئی گوشوں کو منظر ِ عام پر لانے کی کوششوںکا نام ہے جس کی ادبی و تخلیقی تردید و تصدیق کے لیے دُنیا منتظر ہے ۔حالات بیت گئے، زخموں کی تاب کی زد میں ہر عام و خاص انسان آیا، ناقابل ِ فراموش منظر سب کی نظروں سے گزرا، تکالیف و مصائب کا سامنا ہر ایک نے کیا، آنسوؤں کا بہنا اور خشک ہونا ہر ایک کا مقدر بنا،مگران سب کو تاز مانہ تروتازہ اور قیدو بند میں رکھنے کا ہنر ایک ادیب ہی جانتا ہے۔ دلخراش اور نامساعد حالات کی ایسی زنجیروں کو رونق جمال نے اپنے افسانوں، کہانیوں اور انشائیوں جیسے اصناف کا سہارا لے کر کورونا عہد کی تاریخ کو ادب کی دُنیا کا ایک مثالی حصہ بنادیا ہے۔ مشمولات پر غوروفکر کرنے پر ہر موضوع اخلاقیات کادرس دینے کے تقاضے کوعیاں کرتاہے ۔دیئے گئے تمام ہی عنوانات بصورت افسانہ، کہانی، افسانچہ اور بچکا نچہ ہمیں کووڈ۔۱۹ میں بیتے حالات،واقعات، نفسیات، مشاہدات، تجربات اور تجزیات کو عمدہ اندازِ بیان اور دائرہ ادب میں ظاہر کرنے کا فن ان کی تخلیق سے ملا۔ مانوں یہ ہنر رونق جمال صاحب کے دائیں ا ور بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
’کورونا واپس جاؤ‘ جیسی کورونا میٹنگ میں جہاں انھوں نے ملک کی معیشت کو نشانہ بنایا ہے وہیں ’واہ ری اولاد ‘میں کورونا کے زیراثر ازواجی زندگی کی حقیقت کو خوب لتھاڑا ہے۔اس طرح کی معاشرتی، علاقائی اور ملکی تبدیلیوں پر اثر انداز ہونے والے کورونا جیسے مرض کو خوب سے خوب تر اور موثر طریقے سے بڑے ہی عمدہ اور خوبصورت درس کے حوالے سے اُردو ادب کے سنہرے اور اق میں ’ کورونا کے رنگ ‘ کے سہارے خوبصورت اور قابل ِ یاد گار لمحات کا اضافہ کرکے اپنے جمالیاتی رونق کی برتری کا خوب احسا س کرایا ہے۔ تمام موضوعات ہمیں عہد کورونا کے حِسّی لمحات کی یاد تازہ کردینے کے لیے کافی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ معاشرتی زندگی پر رونق جمال کی گرفت کافی مضبوط ہے۔ دلی جذبات کا اظہار اور آپ بیتی کو الفاظ کی شکل دینے کا فن رونق جمال خوب جانتے ہیں۔
عوام الناس سے مودبانہ التماس ہے کہ موصوف کی کورونا عہد کی تخلیق ’ کورونا کے رنگ‘ کا مطالعہ کرکے ادبی لطافت حاصل کرنے کے ساتھ ہی معاشرتی اور جذباتی لمحات کا احساس بھی کریں ۔ساتھ ہی یہ درس بھی بار آور کریں کہ قدرتی نظام میں بے جا مداخلت اور نافرمانئ خداوندی کا خمیازہ کس طرح انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتاہے۔
اﷲ سے دُعا گوہوں کہ رونق جمال کی ادبی و سماجی خدمات میں دن بدن اضافہ ہو اور اُس کا بہترین صلہ بھی انھیں میسر ہو۔ نیز اُن کی زندگی کے لمحات و درجات میں مزید اضافہ ہو۔موصوف کی دعاؤں کی برکات سے خاکسار کو بھی اپنی زندگی میں ترقی کرنے کا خوب موقع عنایت ہو۔ امین 
٭٭٭



Post a Comment

0 Comments