قربانی
محمد رفیع الدین مجاہد
اکولہ (مہاراشٹر)
تفہیم الدین بس روئے جا رہا تھا۔ حالاں کہ بقر عید یعنی عید الاضحٰی کا دن تھا اور عید خوشی کا دن ہوتا ہے۔ مگر دس سالہ تفہیم الدین آج صبح سے ہی اداس تھا اور پھر عید کی نماز کے بعد تو اس نے رونا بھی شروع کر دیا تھا۔
" تفہیم الدین! بیٹے کیوں رورہے ہوں؟" امی نے بڑے پیار سے پوچھا۔
"شاید تمہیں نئے کپڑے پسند نہیں آئے۔۔۔۔۔! بیٹا! تم تو جانتے ہو لاک ڈاؤن شروع ہے۔ کرونا بیماری پھیلی ہوئی ہے اور کاروبار بھی بند ہیں۔ بیٹا! اگلی عید پر ہم ان شاء اللہ تعالیٰ اور اچھے اچھے کپڑے خریدیں گے۔" ابو نے اسے سمجھایا۔
"ٹھہرو۔۔۔۔! ٹھہرو۔۔۔۔!! میں پوچھتا ہوں اپنے پوتے سے۔" دادا جی نے اسے گود میں لے کر آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ " ہاں! اب بولو کیا بات ہے؟"
" داداجی۔۔۔!" اور وہ پھر رونے لگا۔
" ہاں بیٹا بولو نا!"
" آج ہمارا بکرا نہیں رہے گا۔ میں اسے کہیں جانے نہیں دوں گا۔ وہ مجھے بہت پسند ہے۔" اس نے کہا۔
" اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔!" داداجی بولے۔ "بیٹا! اپنی پسندیدہ چیز کو ہی تو اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش اور راضی ہوتے ہیں۔"
"اچھا! ہمارے بکرے کی قربانی سے اللہ تعالیٰ خوش اور راضی ہوں گے!؟" تفہیم الدین نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔
" ہاں!" داداجی نے جواب دیا۔
" ہاں!ہاں!! بیٹا۔" امی ابو بھی خوش ہوتے ہوئے اس کی طرف لپکے ۔
" توپھر میرا پیارا پیارا بکرا اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان۔۔۔۔!"
اور وہ انتہائی خوش ہوتا ہوا داداجی اور امی ابو سے گلے ملنے لگا۔ آج واقعی اس کی عید تھی۔
0 Comments