"پہلی قربانی " (افسانچہ)
سلیم سرفراز
عیدالاضحیٰ سے ایک دن قبل راشد بکرامنڈی آیاـ اسے پہلی بار قربانی کے لیے ایک بکرا خریدنا تھا ـ اس کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ بھی بکرے کی قربانی کرے لیکن پہلے کبھی اس کی اتنی استطاعت ہی نہیں ہوئی تھی ـ اللہ کا کرم تھا کہ اس بار اس کی آرزو پوری ہونے والی تھی ـ تلاش بسیار کے بعد آخرکار اس نے ایک فربہ اور خوبصورت بکرا خرید ہی لیا ـ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اسے لےکر گھر کی طرف روانہ ہوا ـ اس نے سروروانبساط سے سوچاـ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز پل صراط کو اس فربہ بکرے پر سوار ہوکر یقیناً پار کیا جاسکتا ہے ـ
"سنئے! آپ سے مجھے کچھ کہنا ہے"
اچانک ایک آواز ابھری تو راشد نے چونک کر چہارسو دیکھا ـ سنسان سڑک پر دور تک کسی ذی نفس کا پتا نہ تھا ـ پھر یہ آواز کہاں سے آئی؟ اس کی رگ وپے میں خوف کی سہرن سی بھرگئی ـ"
آپ ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہیں؟ آپ سے میں مخاطب ہوں ـ "
آواز بالکل قریب سے آئی تو اس نے گہرے تعجب سے بکرے کو دیکھا اور پھر خوف زدہ لہجے میں بولا ـ
"تم! یعنی تم بکرے بول رہے ہو ـ؟ "
"ہاں بھئی! میں ہی ہوں ـ " بکرے نے قدرےکھیج کر کہاـ " اگر آپ میری جان بخشی کا وعدہ کریں تو میں آپ کو بہت فائدہ پہنچا سکتا ہوں ـ "
"کیا مطلب؟ تم مجھے کس طرح فائدہ پہنچا سکتے ہو؟"
اس کے خوف پر حیرانی غالب آگئی ـ
"جس جگہ میری پرورش ہوئی ہے وہاں کی ایک چراگاہ میں ایک خزانہ دفن ہے ـ اتفاقاً میری نگاہ اس پر پڑگئی تھی لیکن میں اس خزانے کا کیا کرتا؟ ہم جانوروں کے لیے تو بس گھاس پھوس ہی کافی ہے ـ یہ تو انسان ہیں جو حصولِ زر کے لیے زرخرید شوہر تک بننا گوارا کرلیتے ہیں ـ اگر آپ مجھے ذبح نہ کریں تو میں آپ کو وہاں پہنچا سکتا ہوں ـ "
رشید کی ساری زندگی تنگ دستی میں گزری تھی ـ اسے بکرے کی پیشکش بےحد پرکشش لگی ـ خزانہ ملنے کے بعد تو وہ ہرسال درجنوں بکرے قربان کر سکتا ہے ـ اس سال قربانی نہ سہی ـ اس نے فوراً ہامی بھردی ـ
گھر پہنچ کر اس نے بکرے کو ایک مضبوط کھونٹے سے باندھا اور پھر گھر والوں سے مخاطب ہوا ـ
"اس سال اس بکرے کی قربانی نہیں دی جائے گی ـ" اس اعلان نے سبھی کے پیمانہءمسرت کو چکنا چور کردیا ـ جن چھروں اور دانتوں پر ہفتے بھر دھار دی گئی تھی ان سے اپنی ہی بوٹیاں کاٹ ڈالنے کا جی چاہنے لگا ـ عید کے تین روز بعد وہ بکرے کے پاس آیا اور اسے پیار سے مخاطب کیا ـ
"تمہیں قربان نہیں کیا گیا ـ اب اپنے وعدے کے مطابق مجھے خزانے تک لے چلو ـ "
بکرا خاموشی سے جگالی کرتا رہا تو وہ برافروختہ ہوکر چیخا ـ
"تم نے سنا نہیں! مجھے خزانے کے پاس لے چلو یا پھر اس کا پتا بتادو ـ "
اس کی تیز آواز سن کر افرادخانہ جمع ہوگئے ـ پورے واقعے کا علم ہونے پر سبھی حیرت اور بےیقینی سے اسے تکنے لگے ـ قدرے توقف کے بعد اس کے والد نے کہا ـ
"حرص وطمع بھی شیطان ہی کے روپ ہیں جنہوں نے تمہیں قربانی کا اہم فریضہ ادا کرنے سے روک دیا ـ" ـــــــــــــــــــــــــ
1 Comments
بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ناچیز کی تخلیق کو اپنے معتبر رسالے میں جگہ دی ـ سلامتی ہو ـ
ReplyDelete