(’’کچھ لوگ ا س زبانِ خوش بیان (اردو) میں ، جو وقت ، حالات، موسم اور الزامات سے ہار نہیں مانتے، نوکِ قلم پر جو آجائے، اسے ٹانک دیتے ہیں ، جتنا اور جیسا دے سکتے ہیں ، دے جاتے ہیں ، ہاتھ نہیں روکتے، ایسے لکھنے والوں پر مجھے رشک آتا ہے۔‘‘ڈاکٹر ظ انصاری [1]؎)
کانٹوں کی زبان ڈاکٹر ظ انصاری صاحب کے اُن اداریوں پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر ظ انصاری نے روزنامہ انقلاب بمبئی (اب ممبئی) میں اپنے دورِ ادارت میں تحریر کیے تھے۔ کتاب میں اس سے پہلے اور اس کے بعد کی تحریر یں بھی شامل ہیں ۔ظ انصاری کی اس کتاب کے مرتبین ڈاکٹر نظیر رشیدی اور محمد حفظ الرحمٰن ہیں ۔
میں شایع ہوتا تھا۔ اُن کے اداریوں کی بڑی دھوم تھی۔ کیا زبان، کیا الفاظ، کیا اندازِ بیان، معلومات سے پریہ اداریے اپنی مثال آپ تھے۔ اِسی بے مثالی کو دیکھتے ہوئے۔بزم غالب کامٹی کے ذمّے داران نے ظ انصاری سے درخواست کی کہ وہ ان اداریوں کو اپنی بزم کے اشاعتی سلسلے میں شامل کرکے زیور طبع سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اِس سے پہلے کامٹی کی ادبی تاریخ ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ) ، امام بخش صہبائی (ڈاکٹر خواجہ محمد حامد) تلوک چند محروم (ڈاکٹر محمد یوسف انصاری)، غالب صدی اور اقبال صدی پر ضخیم سوونیر شایع کرکے بزم غالب اردو دنیا میں اپنی شناخت بنا چکی تھی۔ظ صاحب سے اِس سلسلے میں عرض گزاری کے لیے صدر بزم غالب ایس۔ کیو۔ زماں ، جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد نظیر رشیدی (مرحوم)،محمد حفظ الرحمٰن، مدحت الاختر، وکیل یعقوبی، عباس صادق، وکیل رسول، جمیل حمیدی اور دیگر اراکین بزم حاضر تھے۔
ظ صاحب نے بزم غالب کے کاموں اور کارناموں ، جن میں عظیم الشان آل انڈیا مشاعروں کا انعقاد بھی شامل ہے، کو دیکھتے ہوئے۔ بزم غالب کو، اداریوں کو شایع کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ کتاب کی ترتیب سے طباعت کے آخری مرحلے تک، ممبئی سے ، اُن کے مشورے شاملِ حال رہے تھے۔
یہ درج ذیل نکات اداریوں کی اہمیت اور افادیت کو بخوبی واضح کرتے ہیں :
· مختلف موضوعات پر،جن کی اہمیت ماہ، سال کے ساتھ کم نہ ہوگی، اداریے، ادارتی نوٹ اور ان کے اقتباسات جوچاردہائیوں پر پھیلے ہوئے ہیں ، اس معنی میں اردو اڈی ٹوریلوں کا پہلا مجموعہ ہے جو اتنے وسیع دائرے کو اس قدر رنگا نگی اور تبدیلیِ فکر ونظر کو اپنے دامن میں بھرے ہوئے ہے۔
· اور اس لحاظ سے بھی اس کی اہمیت بر قرار رہے گی کہ ایک ایسے اِڈیٹر کی تحریر یں ہیں جو سیاسی، معاشی، اقتصادی، تاریخی، لسانی، فکری، علمی، عملی اور فنّی میدانوں میں یکساں جولانیِ طبع دکھاتا ہے اور ہر موضوع میں شگفتہ بیانی قائم رکھی ہے۔
· ہمارے خاص اس زمانے میں اردو نثر کہاں تک پہنچی تھی آئندہ اس کا اندازہ ’کانٹوں کی زبان‘سے بھی کیا جاسکے گا جو صحافت اور ادب کی مشترک میراث ہے۔
برسبیلِ تذکرہ یہ بات واضح کردوں کہ ظ صاحب ہم تمام لوگوں سے بزرگانہ شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔ زماں صاحب ، رشیدی صاحب، مدحت الاختر کے ساتھ ساتھ، مجھ خاکسار محمد حفظ الرحمٰن پر بھی عنایت فرماتے تھے۔ شاید یہ وجہ رہی ہو۔ جب وہ اردو اکادیمی کے کارگزار صدر تھے، بزم غالب کے ذیلی ادارے ، دارالکتابت کا معائنہ کرنے کے لئے بمبئی سے تشریف لائے تھے۔ مشہور ماہر معاشیات اور شاعر ڈاکٹر کیشو چند رسین حقیر آستانی ان کے ہمراہ تھے۔ ہر دو حضرات کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ تعارف کے فرائض میرے ذمّے تھے۔ ظ صاحب ماہر غالبیات اور ہم بزم غالب کے لوگ ،مدّاحِ غالب، ظ صاحب کی علمی وادبی خدمات کا تذکرہ غالب کے متعدد بر محل اشعار سے اُن کا استقبال واکرام، ظ صاحب کو بہت اچھا لگا۔ حُسنِ اتفاق کہ انھیں دنوں امیرخسرو پر اُن کا آڈیو کیسٹ ، ان کی آواز میں ریلیز ہوا تھا۔ جس میں امیر خسرو کی ذات وصفات ، حیات وخدمات نیزموسیقی اور شعریات کے حوالے سے باتیں کہی گئی تھیں ۔ اب ندیم صدیقی کی کتاب ’’پُرسہ‘‘ کی معلومات کے مطابق ،یہ کیسٹ مشہور براڈکاسٹر جے کاشمیری کی ہدایت میں ریکارڈ ہوا تھا۔ ظ صاحب نے بڑے اچھے انداز میں ، یوں کہیں کہ ڈرامائی انداز میں ، آواز کے زیر وبم کے ساتھ، پس منظر میں جنگی گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز ۔ اور اس طرح کے دوسرے لوازمات کے ساتھ اس کی انتہائی عمدہ پیش کش کی تھی۔ ایسے جیدعالم صحافی وادیب کے سامنے کچھ کہنے کی جرأت بھی گویا ہمت کا امتحان تھا، سو اس امتحان سے میں نے اپنے طور پر عہدہ برآہونے کی امکانی کوشش کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر حقیر آستانی کے تعارف میں کہا گیا میرایہ جملہ اکثر و بیشتر شرکائے تقریب اب بھی کبھی کبھی دُہراتے رہتے ہیں کہ ’’ایک اچھا ماہرِ معاشیات اچھا شاعر تو ہوسکتا ہے، لیکن کیا ایک اچھا شاعر، اچھا ماہر معاشیات ہوسکتا ہے؟‘‘
صدارتی تقریر میں ظ صاحب نے فنِ کتابت، اس کے مبادیات اور افادیت کے بارے میں عالمانہ انداز میں اتنی اور ایسی ایسی باتیں بیان کیں کہ جنھیں سن کر سامعین مبہوت رہ گئے۔ لفظوں اور خیالات کا دریا تھا کہ بہتا جارہا تھا۔ کیا انداز بیان، کیا معلومات، ایسا لگ رہا تھا کہ آج فنِ خطابت ظ صاحب پر ختم ہوگیا ہے۔
بات ۱۹۸۷ء کے اواخر کی ہے۔ ایس۔کیو۔زماں صاحب (صدر بزم غالب) کا ٹریڈیونین کا آفس ناگپور آکاش وانی چوک پر ایک بنگلے میں تھا۔ بزم کے بیشتر احباب بشمول یہ خاکسار، عباس صادق ، جمیل حمیدی، مدحت الاختر، نظیر رشیدی، وکیل یعقوبی، وکیل رسول، کاظم علی بھی یونین آفس میں جمع تھے۔ دوپہراور سہ پہر کے درمیان کا وقت تھا۔ اچانک بمبئی سے ظ صاحب کا فون آیا۔ زماں صاحب نے بات کی اور کہا کہ آدھے گھنٹے کے بعد پھر فون کروں گا۔ زماں صاحب نے کہا کہ ظ صاحب کہہ رہے تھے کہ اب آپ لوگوں کی طرف سے کتاب (اداریوں کا مجموعہ) کا کام تقریباً پورا ہورہا ہے۔ اس لیے میں (ظ صاحب) کتاب کا کورڈیزئن کروانا چاہتا ہوں ۔ میں نے کتاب کا نام یہ تجویز کیا ہے(اس وقت صحیح یاد نہیں ) انھوں نے کچھ اِس طرح کا نام بتایا تھا ، جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ کتاب ، کوئی پرانی کتاب ہے۔یہ آدھا گھنٹہ ہمارے لیے بہت بھاری تھا۔ ظ صاحب سے بات کرنا اور کتاب کا نام تجویز کرنا ، آگ کے دریا کو پار کرنے جیسا تھا۔طے وقت پر ظ صاحب کا فون آیا۔ زماں صاحب نے مدحت صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ مدحت صاحب نے میری طرف اشارہ کیا۔ زماں صاحب نے ریسیور مجھے دے دیا۔ اُدھر سے ظ صاحب کی آواز آئی۔ انھوں نے کتاب کا نام بتایا۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ ظ صاحب سے بات کرنے سے اچھے اچھوں کا پِتّہ پانی ہوجاتا تھا۔ مجھ خاکسار کی حالت بھی دگرگوں تھی ہمت جٹائی۔انھوں نے کتاب کا اپنا تجویز کردہ نام بتایا۔ سننے کے بعد بڑے ادب سے میں نے عرض کیا کہ محترم! آپ کا مجوزہ نام کچھ اِس طرح سے ہے جیسے مرزافرحت اللہ بیگ کی کتاب نذیر احمد کی کہانی ، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی۔ اِس نام سے اداریوں کی یہ کتاب کوئی نئی کتاب نہیں معلوم ہوتی۔ظ صاحب نے ذرا بھی بُرا نہ مانتے ہوئے ، تھوڑے توقف کے بعد کہا کہ پھر آپ لوگ بتایئے کہ کتاب کا نام کیا ہو۔ میں نے انتہائی متانت اور ادب کے ساتھ عرض کیا کہ محترم! واقعتا یہ کتاب تو آپ ہی کی ہے۔ آپ جیسے نامور صحافی اور جید ادیب کی کتاب کا نام ہم جیسے ہیچمداں کیسے رکھ سکتے ہیں۔ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کے اصرار پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا کہ جناب عالی! آپ ماہرغالبیات ہیں اور ہم مداحِ غالب (اہل بزم غالب) چھوٹا منہ بڑی بات۔ اداریوں میں آپ نے حالات کے اعتبار سے جو زبان استعمال کی ہے، اس کی نشتریت سے شاید ہی کوئی بچا ہو۔ اِس تیکھی زبان کو دیکھتے/پڑھتے ہوئے آپ کے اداریے کی ایک بات یادآرہی ہے۔ ۱۹۲۰ء یا اس کے بعد مہاتما گاندھی نے ہندستانی سیاست کی خارزاروادیوں میں قدم رکھا تو اس وقت آپ نے ان کی آمد پر غالب کا یہ شعر نقل کیا تھا ؎
کانٹوں کی زباں سو کھ گئی پیاس سے یا رب
اِک آپلہ پا وادیٔ پرُ خار میں آوے
کتاب کی زبان اور اندازِ بیان کو دیکھتے ہوئے، اگر کتاب کا نام، غالب کی زبان میں ’کانٹوں کی زبان‘ رکھا جائے تو کیسا رہے گا؟ محترم! آپ کے ہمت دلانے پر میں یہ سب کہہ رہا ہوں ، ورنہ آپ کے سامنے ۔۔۔ یہ تاب، یہ مجال کہاں ؟ جو شخص جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کا ظرف بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ ظ صاحب نے جواب میں جو بات کہی وہ مجھ جیسے کم علم اور ہیچمداں کے لیے اعزاز کی بات تھی ۔ عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظ صاحب نے کہا، میں اپنا عنوان واپس لیتا ہوں ۔ اور اب آپ کا تجویز کردہ عنوان۔۔ ’کانٹوں کی زبان‘۔۔ ہی کتا ب کا نام ہوگا۔ جواباً میں نے عرض کیا کہ حضورِ والا ! آپ ماہر غالبیات اور ہم مداحِ غالب، یہ میرا تجویز کردہ نام نہیں ہے، میں نے تو صرف غالب کا محولہ بالاشعر آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا، اور آپ نے ’کانٹوں کی زبان‘ پر صاد کیا۔ واقعی ظ صاحب چھوٹوں کو بڑا بناتے تھے۔ لیکن بقول مشہور صحافی اور شاعر ندیم صدیقی ’اب چھوٹے پیدا ہی نہیں ہوتے‘۔ مشمولہ ۔ پرسہ، ص 68۔
اتنا بڑا ادیب، جس کے سامنے بڑے بڑوں کے چراغ نہیں جلتے ، جب وہ خدالگتی، کہنے پر آئے تو اس کے قلم کی زد سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اپنے عنوان کو واپس لینا اور انتہائی کم علم کی توجیہہ کو مان لینا، ظ صاحب جیسے عالی ظرف ہی کا کام ہے۔ زندہ باد، ظ صاحب!
٭٭
یہ بات ۱۹۸۷ء کے وسط کی ہے۔ اداریوں پر مبنی کتاب اور دوسری باتوں کے تعلق سے ظ صاحب دو مرتبہ کامٹی (ناگپور) تشریف لائے۔ ایک روز رات میں ڈاکٹر نظیر رشیدی مرحوم کی رہائش گاہ پر ظ صاحب کی آمد پر ایک پر تکلف ضیافت کا اہتمام کاکیا گیا تھا۔ بزم غالب کے تمام ذمے داران اور اراکین اس ضیافت میں شرکت کرنے والے تھے۔ کارناگپور سے کامٹی آرہی تھی۔ اس میں ظ صاحب سامنے کی سیٹ پر تشریف فرما تھے۔ پیچھے میں اردو اکادیمی کے دو احباب اور بزم غالب کے دو ساتھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اکادیمی کے ایک ساتھی نے مجھ سے دریافت کیا کہ اداریے والی کتاب (ابھی تک کتاب کا نام طے نہیں ہوا تھا) کا کام کتنا ہوچکا ہے، خصوصاً کتابت کے تعلق سے۔ اِس خاکسار نے عرض کیا ۔۔ ورک اِن پر وگریس (Work in progress)ظ صاحب ، ہماری باتیں سُن رہے تھے، تپاک سے بولے، میاں ! پہلے میونسپلٹی میں کام کرتے تھے۔ (میونسپلٹی کی طرف سے یا کسی اور وجہ سے سڑک کی مرمت کا کام ہورہاہو، تو بطور اطلاع راہ گیروں کی اطلاع کے لیے بورڈ پر لکھ دیا جاتا ہے ۔کام جاری ہے) ۔ میں نے عرض کیا محترم! یہ کامرس کی زبان ہے اور خاص طور پر اکاؤنٹس کی۔ یہ سُن کر ظ صاحب نے کہا، میاں ! آپ کامرس یا اکاؤنٹس کے طالب علم ہیں ، تو اردو ادب میں کیسے؟ میں کیا جواب دیتا۔ خاموش رہا، اردو زبان اور ادب کا شوق تو میرا بچپن کا شوق تھا۔
تھوڑی دیر بعد ہم کامٹی پہنچ ہی رہے تھے کہ ظ صاحب نے کہا میاں ! نظیر رشیدی صاحب کا مکان کتنی دور ہے؟ میں نے ازراہ تفننِ عرض کیا، حضرت! بقول غالبؔ ’’یہ بندۂ۔۔۔ ہمسایۂ خدا ہے۔‘‘ ہم بس پہنچا ہی چاہتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ رشیدی صاحب کا کامکان مسجد وارث پورہ کے فوراً بازو میں ہے، صرف دیوار کا آڑ ہے۔ ظ صاحب نے کہا، میاں ! غالب کی زبان میں کیا عمدہ تعارف کرایا ہے۔بہر حال ظ صاحب میری باتوں کو سُنتے بھی تھے اور ان پر کمنٹ بھی کرتے تھے۔
٭٭
اسی دوران ، دوسرے روز ، ہم بزم غالب کے کئی ساتھی، ایس کیوں زماں صاحب کی معیّت میں صبح صبح اُن سے ملنے کے لے ناگپور کے ایم ایل اے گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے ظ صاحب کے سرپر اونی ٹوپی تھی اور وہ شال اوڑھے ہوئے تھے۔ علیک سلیک کے بعد رسمی باتیں شروع ہوئیں ۔ ظ صاحب سامنے ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے ہوئے بیٹھے تھے۔ اُن کا گٹھیلابدن، خوب صورت سراپا، صحت مند ی کی علامت ہاتھوں کی موٹی موٹی انگلیاں ۔ اچانک مجھے کیا سوجھی کہ میں نے اُن سے کہا، محترم! آپ پہلے پہلوانی کرتے تھے۔ ظ صاحب نے خشمگیں آنکھوں سے میر ی طرف دیکھا اور کہا، میاں ! آپ کا کیا مطلب ہے؟ ایسا کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ میں نے بڑے ادب سے عرض کیا، حضرت ماشاء اللہ آپ کی انگلیاں اتنی صحت مند اور موٹی ہیں کہ کوئی بھی انھیں دیکھنے کے بعد پہلی نظر میں آپ کو پہلوان ہی سمجھے گا، کسی ادیب یا قلم کار کی انگلیاں شاید ہی ایسی ہوتی ہوں ۔ ادیب کی انگلیاں تو مجنوں کی پسلیوں کی طرح ہوتی ہیں ، پتلی پتلی ۔ ظ صاحب اِس توجیہہ پر مسکرائے اور کہا میاں ! آپ نے بات کو دوسرا ہی رُخ دے دیا۔
٭٭
ظ صاحب کو دریاں خریدنی تھیں ۔ انھوں نے ہم لوگوں سے پوچھا ، اچھی دریاں کہاں ملیں گئی؟ ہم نے کہا، گاندھی باغ مارکیٹ میں مل جائیں گی۔ ظ صاحب کو ساتھ لیے، ہم تمام ساتھی مارکیٹ کے لیے نکل گئے۔ایک دکان پر پہنچ کر دری دیکھنے لگے۔ میں نے بے ساختہ ایک دری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ شطرنجی کافی اچھی ہے، اسے دیکھ لیجیے۔ انھوں نے فوراً شطرنجی لفظ پر گرفت کی، اور کہا ، میاں ! دری کے لیے آپ نے شطرنجی کا لفظ کیوں استعمال کیا۔ میں نے کہا ہمارے یہاں اور اطراف میں عموماً ایسا ہی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا، یہ تحقیق طلب کام ہے، آپ پتہ لگایئے۔ میں نے کہا، حضورِ والا! میر ی کیا بساط کہ میں تحقیق کروں ۔ آپ سے زیادہ بڑا محقق کون ہوسکتا ہے، آپ ہی بتایئے۔ ظ صاحب نے کہا، میں بھی تحقیق کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، آپ بھی تھوڑا دیکھ لیجیے۔ واقعی ظ صاحب عظیم تھے۔چھوٹوں کی ہمت افزائی میں کبھی کوئی کمی نہیں کی۔
٭٭
کتاب کا نام ’کانٹوں کی زبان ‘ طے ہو جانے کے بعد میں نے اُن سے ادباً دریافت کیا، محترم! اِس لفظ ’زبان‘ کا تلفظ زبان (زپرزبر) ہوگا یا زُبان(زپر پیش) ۔ میں نے کہا انجمن ترقی اردو ہند کے ہفت روزہ ترجمان ’ہماری زبان‘ میں بابا ئے اردو مولوی عبدالحق کے زمانے سے زبان لفظ کو انگریزی میں Zaban لکھا جاتا ہے۔ کچھ اور مثالیں بھی دیں (کافی عرصہ ہوجانے کی وجہ سے اب یاد نہیں ) ظ صاحب نے مثالیں /دلیلیں سننے کے بعد سکوت اختیار کیا۔
٭٭
۱۹۸۷ء میں کانٹوں کی زبان‘ چھپ چکی تھی۔ ۷؍مارچ ۱۹۸۸ء کو ظ صاحب نے اِس کی تقریبِ رونمائی دہلی میں کرائی۔ آندھرا بھون کے ہال میں اس کا اہتمام ہوا۔ اندر کمارگجرال (جوبعد میں ملک کے وزیر اعظم بنے) کے ہاتھوں رونمائی ہوئی۔ یونس سلیم (مرکزی وزیر) ، ڈاکٹر قمررئیس، عبداللہ ملک (پاکستان)، امرتا پریتم، دیوان بریندر ناتھ، منورمادیوان، امیر آغا قزلباش، شمس الزماں ، شاہد علی خاں (مکتبہ جامعہ) نیز کچھ اور مشاہیر ادب خصوصی طور پر شریکِ تقریب تھے۔ کامٹی سے ایس۔ کیو۔ زماں (صدر بزم غالب) کی قیادت میں بزم غالب کے بیشتر اراکین بھی اِس تقریب میں شریک ہوئے، جن میں نظیر رشیدی، راقمِ سطور محمد حفظ الرحمٰن، مدحت الاختر ، جمیل حمیدی، ظہیر الحسن (حیدری)، وکیل یعقوبی، محمد ایوب شامل تھے۔
مذکورہ مشاہیر ادب وسیاست وصحافت کی موجودگی، جو بلاشبہ ظ صاحب کی بلند قامت شخصیت کی وجہ سے تھی، سے کتاب کی رونمائی کی تقریب مزید باوقار ہوگئی تھی۔ اس تقریب میں مہمانان نے ظ صاحب اور کانٹوں کی زبان نیز ان کی عمومی وادبی شخصیت کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا، وہ انتہائی وقیع تھا۔ (اب وقت گذرنے کے بعد، اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ کاش وہ ساری باتیں قلم بند کرلی گئی ہوتیں ، یا ٹیپ کرلی گئی ہوتیں )
اِس سلسلے میں عرض کرتا چلوں کہ عزیزی وقار احمد ابن ممتاز احمد نے تقریب کے لیے جو بیز بنایا تھا، اس میں حرف ظ کو اُسی انداز میں لکھا گیا تھا ، جو ظ صاحب کے وزٹنگ کارڈمیں چھپا تھا۔ غالباً وہ ظ روسی زبان کے کسی لفظ کا ہم شکل تھا۔ ظ صاحب نے یہ بیز، جو کامٹی سے بنا کر لے جایا گیا تھا، جب دیکھا تو پورے بیز کی کتابت کی اور خاص طور پر ظ کی شکل کی بہت توصیف کی۔
دہلی سے واپسی کے کچھ دنوں بعد کامٹی (ناگپور) میں بھی کتاب کی رونمائی کی تقریب کا انعقاد بزم غالب کے زیر اہتمام ، گجری بازار میں فرینڈس سوسائٹی کے وسیع و عریض ہال میں کیا گیا۔ ظ صاحب مہمانِ خصوصی تھے۔ جلسے کے آغاز میں ربّانی ہائی اسکول کے ایک طالب علم نے سورۂ رحمٰن کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی۔ نظامت راقم سطور کے ذمے تھی۔ ضروری کاروائی کے بعد ظ صاحب سے خطاب کے لیے درخواست کی گئی۔ موصوف نے ابتدائی کلمات کے بعد سورۂ رحمٰن کی اہمیت وفضیلت کے بارے میں مختصراً کچھ باتیں کہیں ۔ ا س کے بعد تلاوت کردہ دو لفظ علمہ البیان پر جوعالمانہ خطبہ دیا، وہ یادگار خطبہ تھا۔ آج بھی لوگ اس تقریر کو یاد کرکے ظ صاحب کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ کیا اندازِ بیان تھا، کیا زورِخطابت تھا، معلومات کا دریا تھا کہ بہتا جارہا تھا، آواز کے زیروبم ، جسمانی حرکات وسکنات ، سارے سامعین مبہوت۔ اُنھیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی ظ صاحب ہیں جو روس میں کئی برس گزار آئے ہیں، جن کی نظریاتی وابستگی کمیونزم سے تھی۔ یا کوئی مذہبی عالم بے بدل سورۂ رحمٰن کی اہمیت وافادیت پر گہرافشانی کررہا ہے۔ بہر حال تقریباً ایک گھنٹے تک گل افشانی گفتار کے بعد، آخر میں کانٹوں کی زبان کے تعلق سے ، بالخصوص اردو زبان ، صحافت اور سیاست کے بارے میں اپنے خیالات وافکار سے سامعین کو روشناس کرایا۔ تقریر ختم ہوتے ہی واہ واہ اور سبحان اللہ کی آواز وں سے سارا ہال گونج اُٹھا۔
یہ تقریر سننے کے بعد حاضرین کو وہ تقریریں یاد آگئیں ، جو انجمن ضیاء الاسلام میں، کچھ برسوں پہلے ماہنامہ خیال کے ایڈیٹر فیض انصاری کی دعوت پر، ظ انصاری نے کی تھیں ۔ اُس وقت اہل کامٹی نے غالباً پہلی مرتبہ اتنے بڑے ادیب، محقق، مترجم کی بے پناہ معلومات سے پر ،تقریر سنی تھی۔ اس موقع پر امیر خسرو کی شخصیت پر ظ صاحب نے جو تقریر کی تھی، وہ لاجواب تھی۔ اتنی بصیرت افروز تقریر شاید ہی موجود سامعین نے اس سے پہلے سُنی ہوگی۔ سابق ایم ایل اے اور’ الفاروق‘کے ایڈیٹر عبدالستارفاروقی نے اِس تقریب کی صدارت کے فرائض انجام دیے تھے۔
(مطبوعہ ، ممبئی اردو نیوز۔ ۲۸؍جنوری۲۰۱۸ء اور ۴؍فروری ۲۰۱۸ء)
٭٭٭
پست نوشت:
۲۰؍جولائی ۲۰۱۹ء کے ممبئی اردو نیوز کے سینئر صحافی ندیم صدیقی نے اپنے مشہورکالم ’شب و روز‘ میں جو بات لکھی ہے، اس سے آج بھی ’کانٹوں کی زبان‘ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہےـــــــ ”ڈاکٹر ظ انصاری اس اخبار (انقلاب م ح ر) کے دو بار مدیر بنائے گئے مگر وہ دونوں بار اخبار سے الگ بھی ہوئے لیکن (کم ازکم) ممبئی کی اردو صحافتی تاریخ میں وہ وہ یوں درج ہیں کہ جس اخبار کا اوپر تذکرہ ہوا ہے اس اخبار میں ان کے لکھے ہوئے اداریوں کا ایک انتخاب ”بزم غالب (کامٹی)“ نے ”کانٹوں کی زبان“ کے نام سے شائع کیا، یعنی وہ اداریے اخبار مذکور ہی کے نہیں بلکہ اس دور کی اردو صحافت کی بھی ایک روشن تاریخ بن گئے ہیں۔
٭٭٭
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ سن ۱۹۸۶ء کی بات ہے۔ اُس زمانے میں روزنامہ انقلاب ظ انصاری کی ادارت
[1] ۱؎ انتخاب مضامین ظ انصاری ، مرتب : شاہد ندیم ۔ ص 83۔
0 Comments