Ticker

6/recent/ticker-posts

پروفیسر حنیف کیفی


جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر حنیف کیفی کا انتقال

یہ خبر بہت افسوس کے ساتھ دی جارہی ہےکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کےسابق صدر اور اردو ادب کے مشہور نقاد اور محقق پروفیسر حنیف کیفی کا ہولی فیملی اسپتال میں بدھ صبح ساڑھے دس بجے انتقال ہوگیا ۔ان کے بیٹے ادیب الاطفال محمد سراج عظیم کے مطابق ان کو 24 جنوری کو ہولی فیملی کے آئ سی یو میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ جاں بر نہ ہوسکے اور بدھ کی صبح ساڑھے دس بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔ڈاکٹر حنیف کیفی کا جامعہ میں سن 1972 میں لکچرر کی حیثیت سے تقرر ہوا تھا۔اور سن 1998 میں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔پروفیسر حنیف کیفی کی پیدائش سن 1934 میں اتر پردیش کے شہر بریلی میں ہوئ تھی۔پروفیسر حنیف کیفی ایک سلجھے ہوئے نقاد و محقق تھے انکی پہلی تحقیقی کتاب اردو شاعری میں سانٹ تھی اور دوسری معرکت العارا کتاب اردو میں نظم معرا ازاد نظم ہے۔جس کی ادبی دنیا مین بہت پذیرائی ہوئ۔کیفی صاحب تقریبا پندرہ کتابون کے مصنف تھے ۔ان کے پسماندگان میں اہلیہ ادیب الاطفال سراج عظیم پروفیسر قمر سلیم قیصر نعیم معراج وسیم رضوان حشیم منہاج مستقیم اور امریکہ میں فائز تمیم صاحبزادگان ہیں ان کی ایک بیٹی اور بیٹے کا انتقال پہلے ہوچکا ہے۔



تعزیت

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

اناللہ واناالیہ راجعون ۔اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ سراج صاحب اور دیگر متعلقین کو صبر کی توثیق دے۔ آمین۔
میں نے کیفی صاحب کی ہیڈ شپ کے دوران ہی پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن کروایا تھا۔ جامعہ ملیہ میں ۔بہت سیدھے، سچے اور مخلص استاد تھے محترم کیفی صاحب۔ بے حد افسوس ہوا۔ ںیک اور قابل لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے۔

ڈاکٹر خالد مبشر

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
آج (27 جنوری 2021) جدید اردو نظم کے اہم محقق اور ناقد پروفیسر حنیف کیفی نے ہولی فیملی اسپتال، نئی دہلی میں آخری سانس لی۔ حق مغفرت کرے۔
ان کی کتاب "اردو میں نظمِ معرا اور آزاد نظم"(ابتدا سے 1947 تک) حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی ایک اور کتاب "اردو شاعری میں سانیٹ" اپنے موضوع پر اردو میں پہلی باضابطہ تحقیق و تنقید ہے۔
وہ شاعر بھی تھے۔ان کے دو شعری مجموعے "چراغِ نیم شب" اور "سحر سے پہلے" شائع ہوچکے ہیں۔
انھوں نے شعبہء اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں بحیثیت پروفیسر اور صدرِ شعبہ خدمات انجام دیں۔
ان کی پیدائش 8 ستمبر 1934 کو بریلی (اترپردیش)  میں ہوئی۔

وحید امام

سراج عظیم صاحب کے والد محترم کے سانحہ ارتحال کی خبر غمزدہ کرگئی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کا صدمہ وہی شدت سے محسوس کرسکتا ہے جس نے یہ غم سہا ہے۔اس غم کے موقع پر سوائے صبر کی تلقین کے کوئی چارہ نہیں بقول غالب صبر کی تلقین بھی بے رحمی کے مترادف ہے مگر۔۔۔۔۔۔تعزیت کا فریضہ انجام دینا بھی ضروری ہے۔تحقیق و تنقید کے میدان میں مرحوم کی گرانقدر خدمات قابل قدر ہیں مرحوم کا اٹھ جانا ایک ناقابلِ تلافی خسارہ ہے۔ہم اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)

قیوم اثر

سراج عظیم صاحب کے والد محترم کی ناگہانی موت دکھوں کے سمندر میں ڈوبوگٸی۔آج اردو تحقیق و تنقید میں ایسا خلا ٕ پیدا ہوگیا جو دوبارہ پر ہونے سے رہا۔اس گھڑی کا مقابلہ بھی اردو والوں کی بساط سے باہر ہو چلا ہے۔۔۔اللہ صبر دے۔
دعا کرتا ہوں؛
اللہ مرحوم حنیف کیفی صاحب کی مغفرت فرماۓ۔
انھیں کروٹ کروٹ سکون دے۔
جنت میں ان کے درجات بلند کرے۔
قبر کو منور کردے۔
لواحقین اور متعلقین کو صبر جمیل عطا کرے۔
جامعہ ملیہ کی حفاظت کرے۔
سراج صاحب کا غم کم ہو۔
چھوٹوں پر رحم فرماۓ۔
ﷲ۔۔۔اس کے رسول محمدﷺ کے صدقے میری ٹوٹی پھوٹی دعاؤں پر مہر قبولیت ثبت کرے۔
شریکِ غم
قیوم اثر
اورجملہ‌ اراکین افسانہ نگار



Post a Comment

0 Comments