Ticker

6/recent/ticker-posts

ڈرامے کا فن اور ریحان کوثر

ڈرامے کا فن اور ریحان کوثر
وکیل نجیب
وکیل نجیب

ڈرامہ ادب کی قدیم ترین صنف ہے۔ مغربی ممالک کے لوگوں نے اسے بام ِعرُج پر پہنچا دیا۔ اسی صنف کی وجہ سے انگلینڈ کے قلم کار شیکسپئر نے لافانی شہرت حاصل کی، آج اس کے ڈرامے یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو پڑھائے جاتے ہیں۔ دنیا کی ساری زبانوں میں اس کے ڈراموں کا ترجمہ ہوا۔ ہمارے ملک میں اس کے درجنوں ڈراموں پر فلمیں بنیں اور آج تک بن رہی ہیں۔
انگریزی زبان سے یہ صنف اردو زبان میں داخل ہوئی اور اردو میں بھی اسٹیج کرنے کے لیے بہترین ڈرامے تخلیق کئے گئے اور عمدہ طریقے سے انھیں اسٹیج پر پیش کیا گیا۔
ڈرامے دراصل اسٹیج پر پیش کرنے کی چیز ہے۔ کچھ لوگوں نے ایسے ادبی ڈرامے بھی تحریر کئے ہیں جو اسٹیج پر پیش تو نہ کئے جاسکے لیکن کتابی شکل میں شائع ہو کر انھوں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ اردو کے کئی یادگار ڈراموں پر کامیاب فلمیں بھی بنیں جس کی سب سے روشن مثال امتیاز علی تاج کا ڈرامہ "انار کلی " ہے جس پر مختلف زبانوں میں درجنوں فلمیں بنیں اور اس ڈرامے کی بنیاد پر بنی ہوئی سب سے کامیاب فلم "مغل ِ اعظم " ہے جو ہندوستانی فلموں میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ آغا حشر کاشمیری نے بےانتہا خوبصورت ڈرامے لکھے اور ان پر بھی کئی کامیاب فلمیں بنیں جن میں بمل رائے کی ڈائریکشن میں بنی دلیپ کمار، مینا کماری اور سہراب مودی کی فلم "یہودی " ہے۔ اس فلم کی موسیقی شنکر جئے کشن نے ترتیب دی تھی۔ آج بھی اس کے گیت ریڈیو پر بجتے ہیں تو ہمارے جیسے لوگ سارے کام چھوڑ کر انھیں سننے میں محو ہو جاتے ہیں۔
اردو زبان میں بڑوں اور بچوں کے لیے ڈراموں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ بعد میں آنے والے قلمکاروں نے بھی اس پر طبع آزمائی کی اور کامیاب ڈرامے تخلیق کئے۔ یہاں ہم بچوں کے ڈراموں کی اور ریحان کوثر کے ڈراموں کے مجموعے پر بات کریں گے۔
ڈرامے بچوں کے لیے کشرت سے لکھے جاتے ہیں وہ اس لیے کہ اسکولوں میں سوشل گیدرنگ میں اساتذہ اور معلمات اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اسکول میں، ان کی اسکول کے بچے ڈرامے میں حصہ لیں اور اسٹیج پر آکر اپنی اداکاری کا جلوہ دکھا سکیں۔ اس سے بچوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اساتذہ، معلمات، والدین اور ساتھی طلبہ طالبات بھی خوش ہو جاتے ہیں۔ ڈراموں میں حصہ لینے والے بچوں میں زبردست خود اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس مقصد سے اسکولوں کے قابل اساتذہ بھی ڈرامے تحریر کرتے ہیں۔ دوسرے قلمکاروں سے بھی ڈرامے لکھوائے جاتے ہیں۔ کامیاب ڈرامے وہی ہوتے ہیں جو تحریری شکل میں آنے کے بعد آسانی سے اسٹیج پر پیش کئے جاسکیں۔
ان ڈراموں کے ذریعے بچوں کو اخلاق کی باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ بزرگوں کا احترام، ماحولیات کا تحفظ، بیماریوں کی روک تھام، طنز و مزاح اور ہلکی پھلکی شاعری بھی ڈراموں میں پیش کی جاتی ہے۔
ریحان کوثر صاحب کامٹی کی ایک معتبر ادبی اور تعلیمی شخصیت ہیں۔ عزم و حوصلے کے پیکر ہیں مشکل ترین حالات میں اپنے کام کو انجام دینے کا سلیقہ و شعور رکھتے ہیں۔ تعلیم کے میدان کے ساتھ ہی ادبی محاذ پر بھی برسرپیکار ہیں۔ گذ شتہ تین برسوں سے کامٹی جیسے چھوٹے شہر سے بچوں اور نوجوانوں کا بڑا رسالہ "الفاظ ہند " جاری کئے ہوئے ہیں۔
ریحان کوثر کو ڈرامے پر خاصا عبور حاصل ہے۔ ڈراموں کی پرکھ ہے اور ڈرامہ تحریر کرنے اور اسٹیج پر پیش کرنے کے فن سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ اس نوجوان فن کار کی ڈراموں کی اس کتاب میں جو ڈرامے ہیں وہ سب کے سب ادب کے اچھے نمونے ہیں۔ ہر ڈرامے میں بچوں کو کچھ سکھانے اور کوئی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے اور ہر ڈرامہ اس قابل ہے کہ اسے عمدگی سے اسٹیج پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اب چونکہ ریحان کوثر تعلیم و تعلّم کے ساتھ ساتھ مذہبی قدروں کے نگہباں و محافظ ہیں لہٰذا ان کے ڈراموں میں جگہ جگہ مذہبی باتوں کو نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک ڈرامہ ہے "گوشت خور " اب اس عنوان کو پڑھ کر اور ابتدائی جملوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف بچوں کو یا تو گوشت خوری کی اچھائیاں بتائے گا یا پھر اس کی برائیوں کی نشاندہی کرے گا لیکن ڈرامہ جب اپنے اختتام پر پہنچتا ہے تو گوشت خوری کا ایک پرانا نظریہ نئے انداز سے قاری کے سامنے آتا ہے اور قاری اسے پڑھ کر بھونچکا رہ جاتا ہے۔ اس طرح بچوں کی جو ایک بہت بری عادت ہے اس سے نہ صرف روشناس کرایا گیا ہے بلکہ اسے چھوڑ دینے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔
اسی طرح کا ایک ڈرامہ ہے "سائیکل " ایک شریر بچہ ہے جسے دوسروں کو پریشان کرنے میں مزہ آتا ہے اور کچھ لوگ کچھ دیر کے لیے پریشان بھی ہو جاتے ہیں لیکن مصنف نے اس ڈرامے کے ذریعے سے درگذر اور دوسروں کی مدد کرنے کا ایسا درس دیا ہے کہ ذہین ترین قاری بھی اس اختتام کی امید نہیں کرتا۔ اس ڈرامے کے ذریعے سے ہمدردی، احسان مندی، مروت اور محبت کے جذبات کو جگانے کا جو کام مصنف نے انجام دیا ہے اس پر داد دئے بغیر نہیں رہا جاتا۔
ہلکے پھلکے مزاحیہ ڈرامے بھی بچوں کی تفریح، طبع کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ڈرامہ "ایک سفر" اس کی بہترین مثال ہے اپنی ہوشیاری کے جال میں چالاک آدمی بھی کیسے پھنس جاتا ہے اس بات کو خوبصورت مکالموں کی شکل میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ قاری الجھن کا شکار ہو جاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ ڈرامے کا آخری جملہ پڑھتا ہے اس کے چہرے پر تبسم بے اختیار آجاتا ہے اور اس خوبصورت اختتام سے وہ دیر تک محظوظ ہوتا رہتا ہے۔
اس کتاب کے تمام ڈرامے اسی نوعیت کے ہیں خوبصورتی اور فن کاری سے لکھے ہوئے ہیں خود یہ ڈرامہ عید مبارک ہمیں دوسروں کی تحقیر کرنے سے روکنے کا پیغام دیتا ہے۔
ان تمام ڈراموں کو اسٹیج پر کس طرح سے پیش کیا جائے اس کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ ون ایکٹ پلے ہو یا کثیر ایکٹ پلے ہو مصنف نے اسٹیج پر پیش کرنے کی ہدایت اور اس کی جزئیات کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ کسی بھی ڈرامے کی جان اس کے مکالمے ہوتے ہیں بلکہ ڈرامے صرف مکالموں کا مجموعہ ہی ہوتے ہیں۔ اب چونکہ یہ ڈرامے بچوں کے لیے تحریر کئے گئے ہیں اس لیے ڈراموں میں مکالمے چھوٹے چھوٹے معنی خیز اور اپنے مدعا کو پورے طریقے سے بیان کرنے والے ہیں۔ یہ مکالمے اداکاروں سے اچھی طرح ادا بھی ہو جائیں گے اور پڑھنے والا جب ڈرامہ پڑھے گا تو وہ اسے روانی سے پڑھ بھی لے گا۔ ان ڈراموں کا خاص وصف ان کے مکالموں کی تخلیق و ترتیب ہے جس سے مصنف کی دانش مندی اور زودفہمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
درحقیقت ڈرامے تخلیق کرنے کا فن ایک نہایت مشکل فن ہے۔ ایسا موضوع اور کہانی تلاش کرنا کہ پوری کہانی تھوڑے سے وقت میں اور تھوڑی سی جگہ پر انجام پاجائے، بڑی ذہنی فراست کا کام ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ریحان کوثر کا دماغ اس میں خوب چلتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ناگپور کامٹی میں اتنی خوبصورتی سے ڈراموں کی تخلیق کرنے والا دوسرا اور کوئی قلمکار موجود نہیں ہے۔ میں اردو ادب کے اس جیالے مجاہد کو اس کی اس بہترین کوشش پر دل سے مبارک باد دیتا ہوں۔ ابھی تو آغاز ہے یہ سلسلہ دراز ہوگا تو ملک عزیز کے اردو ادب کے افق پر سب سے زیادہ روشن ڈرامہ نگار کا جلوہ ہمیں نظر آئے گا۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments