ماہنامہ الفاظ ہند خصوصی شمارہ توشاہیں ہے۔۔۔! مارچ2020ء
اداریہ: تو شاہیں ہے!
ریحان کوثر
الفاظ ہند مارچ2020ء
پیارے بچو! ملک کے موجودہ حالات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ ہر سمت افراتفری کا عالم ہے۔ کہیں احتجاجی مظاہرے، کہیں احتجاجی ریلیاں اور مختلف مقامات پر دھرنے اور آندولن جاری ہیں۔ متعدد بار’’ بھارت بند‘‘ مہم بھی چلائی گئی ہے۔ دہلی کے اوکھلا علاقے میں شاہین باغ کے دھرنے کے بعد ملک کے مختلف مقامات پر سیکڑوں شاہین باغ وجود میں آ چکے ہیں۔ اب تو دہلی میں جو نہ ہونا تھا وہ بھی ہو گیا ہے۔ ان دنوں جبر و تشدد کے بے حد ڈراؤنے منظر دیکھائی دیئے۔ بطور مدیر ماہنامہ الفاظ ہند میں بڑے ہی پس و پیش میں ہوں کہ کیا لکھوں کیا نہ لکھوں۔ نہ تو یہ جریدہ خالص بچوں کا ہے اور نہ ہی خالص بڑوں کااس وجہ سے اپنے اداریے میں کیا لکھوں سوجھ نہیں رہا ہے۔ دوسری سب سے اہم بات یہ کہ الفاظ ہند کا یہ صفحہ یعنی اداریے کا یہ پلیٹ فارم صرف اور صرف نونہالان امت مسلمہ کے لیے مخصوص ہے۔ اگر ملک کے حالات ٹھیک ٹھاک ہوتے تو ضرور آپ سے آپ کے امتحانات کے تعلق سے بات کرتا، یا شاید گرمی کی تعطیلات پر میری گفتگو مرکوز ہوتی۔ یہ بھی ہو سکتا تھاکہ کچھ ماحولیات یا کرونا وائرس پر بھی غور و فکر ہوتی لیکن انسانی فطرت ہے کہ ہم آس پاس کے حالات اور واقعات سے کافی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے میں آپ سے حالاتِ حاضرہ پر ہی گفتگو کررہا ہوں۔
مسئلہ جب وجود کا ہو اور معاملات اپنی شہریت ثابت کرنے تک پہنچ جائے تو گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہونا لازمی ہے۔ شہریت کا موضوع ہرخاص و عام سے وابستہ ہے۔ کیا بڑا کیا چھوٹا، کیا امیر کیا غریب اور کیا مرد اور کیا عورت ہر کوئی اس کی زد میں ہیں۔ ملک کے بیشتر شہری بے انتہا غم و الم میں مبتلا ہے۔ افواہوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈر اور خوف کا ماحول دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک ہلکی سی آواز پر ہزاروں کا مجمع پلک جھپکتے ہی جمع ہو رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ اسی کے ساتھ ساتھ اپنا اپنا ذاتی نفع و نقصان تولنے والے، اپنا ذاتی ایجنڈا چلانے والے کچھ سیاسی گدھ اس ہجوم پر منڈلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان موقع پرست گدھوں سے ہمیں ہوشیار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں میں کم و بیش ایک جیسے حالات ہیں۔ عوام کے لیے تین مختلف قانون یا نظام کے نافذ ہونے کے خدشات پریشانی کے سبب بنے ہوئے ہیں۔ سی۔ اے۔ اے۔ یعنی سیٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ، این۔ پی۔ آر۔ یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر اور این۔ آر۔ سی۔ یعنی نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ، ان تمام قوانین سے لوگ حیران و پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نافذ ہو چکا ہے کچھ باقی ہے۔ لیکن مجھے ان تمام قوانین سے زیادہ پریشانی نہیں۔ میرا موقف کچھ اور ہے۔ پہلا یہ کہ میری شہریت ثابت کرنے کے لیے کہے جانے کا امکان ہے۔ اس امکان سے مجھے میری بے عزتی محسوس ہوتی ہے کہ جس زمین پر میں پیدا ہوا وہاں مجھے میری شہریت ثابت کرنے کے لیے کہا جائے۔ شہریت ثابت کرنے کے لیے جو عملہ متوقع ہے وہ خود یہاں کا شہری ہے یا نہیں اس عملے کے پاس بھی شہریت کا کوئی رجسٹریشن نہیں۔ میری دوسری پریشانی یہ ہے کہ مجھے یہ بالکل برداشت نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت یعنی ہمارے ملک ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ چند افراد کریں۔دل میں جو آئے بولیں، دل میں جو آئے کر یں،اس طرح کی غیر جمہوری طرزحکومت کی حمایت کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ تیسری پریشانی یہ ہے کہ ملک کے آئین میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں۔ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی یہ تو صرف اسباب ہے ہمارے صبر و تحمل اور شعور و آگاہی کی آزمائش کےلیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے چاہا تو ہم سب ان امتحانات میں کامیاب ہوں گے۔
جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کی بات کی جائے تو آزادی کے بعد یہ ایک سنہرے باب کی شروعات ہے اور روشن اور تابناک مستقبل کی دستک ہے۔ ستر سالوں میں جو غلطیاں ہم نے کیں اس کی تلافی کا موقع ہے۔ آج ہندوستانی مسلمانوں میں سیاسی، سماجی اور معاشی اور شعوری بیداری اپنی بلندی پر ہے۔ اس وقت ہمیں سب سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دراصل آج جو ماحول ہے وہ چند روز کی غلطیاں نہیں بلکہ ستر سالوں تک ہمارے لاشعوری اور بے خیالی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے اپنی تعلیم و تربیت پر وہ توجہ بالکل نہیں دی جس کی ضرورت تھی۔ جان بوجھ کر یا بے خیالی میں ہی سہی لیکن ہمارے ہم وطن بھائیوں اور بہنوں سے ہمیں مسلسل دور کیا گیا۔ مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے نفرتیں پیدا کی گئیں اِدھر بھی اور اْدھر بھی۔۔! ہمارے مذہبی پیشواؤں نے پہلے تو ہمیں متعدد بار مختلف طریقوں سے ہمارے ہم وطن بھائیوں کے قریب جانے سے روکا، ان سے اور ان کے تہواروں سے دور رہنے کے مفت میں مشورے دیے گئے۔ آج یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہو رہی ہے کہ وہی مذہبی پیشوا ان کے تہوار اور ان کے رہنماؤں کی یوم پیدائش مناتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ پیشوا جو اپنی پیدائش سے لے کر مذہبی عہدےپر تقررات تک دو چار ہم وطن بھائیوں سے بھی وابستہ نہیں، وہ بھی ہم وطن بھائیوں کی نفسیات پر بیانات دے رہے ہیں۔ ان کی کس طرح قربت حاصل کی جائے سمجھا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو کھائی ستر سالوں میں کھودی گئی وہ اتنی جلدی نہیں پاٹی جا سکتی۔ ہمیں ہمارے ہم وطن بھائیوں کو ساتھ لینے کے لیے انھیں اپنی اخلاقی اور تہذیبی قدروں سے متعارف کرنا ہوگا۔ ان کے سامنے ہمیں اخلاص و محبت کا پیکر بن کر پیش ہونا ہوگا اور ان سب کاموں کے لیے ہمیں لمبی پلانگ کی ضرورت ہے۔
دوستو! جب اس شہریت ترمیمی قانون کی تحریک پر تاریخ رقم کی جائے گی تو سب سے پہلے ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو یاد کیا جائے گا۔ یہ تعلیمی ادارے جہاں سے انقلاب اور تبدیلی کی روشنی نکل رہی ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوریت کی فصل کی سر سبزی اور شادابی کے لیے تعلیمی شعور کی کھاد اور پانی ضروری ہے۔ یہ تعلیمی ادارے ہمارے اسلاف کی حقیقی میراث ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو ہمارے ملک کی زینت و وقار جوکہ جمہوری نظام کی بدولت ہے، تار تار ہو جاتا۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اس تحریک کو ہماری خواتین نے اپنے عزم و ارادے سے بلندی پر پہنچایا ہے۔ اس ماہ یوم خواتین بین الاقوامی سطح پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر میں ماہنامہ الفاظ ہند کی جانب سے ان تمام زندہ اور جاوید اپنی بہن بیٹیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
امتحانات کی تیاری میں مصروف تمام طلبہ وطالبات کے لیے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ ملک و ملت اسلامیہ کے تابناک مستقبل کا ذریعہ بنیں گے اور ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ ؎
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
٭٭٭
0 Comments