بزم افسانہ کی پیش کش
چھٹا ایونٹ
عصری افسانہ
( برائے تنقید و تبصرہ )
افسانہ: بیلچے والے
افسانہ نگار : مقصود حسن
تعارف:
کالکی نارہ ،کولکاتا ، مغربی بنگال سے مقصود حسن اردو کے نوجوان افسانہ نگار ہیں ـ افسانہ کے ساتھ ہی موصوف نے شاعری اور افسانچہ نگاری میں بھی کامیاب طبع آزمائی کی ـ ان کی تحریروں کا اختصاص اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اخذ کیے گئے وہ نتائج ہیں جو ایک فرد کے ساتھ ہی پورے سماج و معاشرے میں تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں ـ موصوف کی تخلیقات کولکاتا سے جاری ہونے والے ادبی رسائل 'سہیل' اور 'رہروان ادب' میں تواتر سے شایع ہوتی ہیں ـ مقصود حسن اپنی منصبی مصروفیات کے سبب ادب کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے لیکن جتنی بھی ان کی توجہ ہے وہ لائق ستائش و تحسین ہے ـ موصوف کی اب تک کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی تاہم امید ہے جلد ایک افسانوی مجموعہ شایع ہوگا ـ پیشے سے مقصود حسن صاحب مغربی بنگال پولس فورس میں ڈیپیوٹی سپرٹینڈن آف پولس (Dy. SP) کے عہدے پر فائز ہیں ـ
پیش کردہ افسانہ 'بیلچے والے ' غیر مطبوعہ ہے ـ
ڈیوٹی کے دوران شام کو جب کبھی میں اس راستے سے گزرتا تو اتنے سارے لوگ اور انکے ہاتھوں میں بیلچے دیکھ کر متجسس ہوتا.. اکثر یہ خواہش بھی ہوئی کہ رک کر انکے بارے میں دریافت کروں کہ یہ لوگ کون ہیں, کہاں سے آئے ہیں اور بیلچے لیکر کیا کرتے ہیں... لیکن کہتے ہیں نا, کہ جب آپ ایسی کسی خواہش کی جستجو میں ہوں, کچھ تلاش کر رہے ہوں تو کبھی نہ کبھی موقع مل ہی جاتا ہے...
اس دن اتفاقاً میں اس طرف نکل پڑا تھا... شام ہوچکی تھی اور رات دستک دے رہی تھی... مدھم بلب کی روشنی میں میں انہیں بآسانی دیکھ سکتا تھا... ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی روک کر میرے اور اَملان کیلئے چائے لائے... اَملان مجھ سے ایک سال جونیئر تھا اور اس دن ڈیوٹی کے بعد وہ میری گاڑی ہی میں میرے ساتھ ہاؤسنگ لوٹ رہا تھا... سڑک کے کنارے چائے دکانوں میں عموماً مٹی کے پیالے میں چائے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے... ہولے ہولے ہوا چل رہی ہو, مٹی کے پیالے میں چائے کی سوندھی خوشبو اور سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش! پورے دن کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے...
اَملان کے ساتھ چائے کی چسکی لیتے ہوئے میں ان بیلچے والوں کو بغور دیکھ رہا تھا... کان پر زور دیکر انکی باتیں بھی سننے کی کوشش کی... وہ لوگ بھوجپوری میں باتیں کر رہے تھے, بات بات پر گندے فقرے کس رہے تھے, ایک ادھیڑ عمر کا شخص بڑی لگن سے اپنی ہتھیلی پر کھینی رگڑ رہا تھا... کھینی تیار کرنے کے بعد اس نے اپنے ساتھیوں کو بڑھا دیا اور خود ایک چٹکی میں لیکر اپنے نچلے دانتوں میں دبا لیا... تھوڑی دیر کے بعد میں نے ایک نوجوان بیلچے والے کو اپنی طرف بلایا... پہلے تو میری وردی دیکھ کر وہ کچھ ہچکچایا, پھر میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر میرے پاس چلایا آیا... میں نے اسکے بیلچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ لوگ کیا کرتے ہیں... اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی... اس نے کہا "صاحب, ہم لوگ لاریوں سے بالو, پتھر خالی کرتے ہیں, اِدھر شام کے وقت کلکتہ جانے والی بالو یا پتھر سے لدی گاڑیاں ہمیں لے جاتی ہیں اور ہم وہاں کسی سائٹ پر پہنچ کر گاڑی خالی کر دیتے ہیں "
"ایک گاڑی میں کتنے لوگ جاتے ہو اور کتنے پیسے ملتے ہیں " میں نے اپنے ہاتھ سے مٹی کا پیالہ ایک طرف پھینکتے ہوئے پوچھا..
"صاحب, ایک جَن کو پانچ سو روپے ملتے ہیں, چار پانچ گھنٹے کا کام ہوتا ہے " اس نے کچھ سپاٹ لہجے میں کہا... میری پوچھ تاچھ سے وہ تھوڑا گھبرایا ہوا سا لگ رہا تھا...
"تم لوگوں کو روزانہ کام مل جاتا ہے ؟" میں نے مزید کریدنے کی کوشش کی...
"نہیں صاحب, ہر دن نہیں ملتا ہے.. برسات کے دنوں میں تو ہم لوگ اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں... یہاں ہم سب ایک ہی گاؤں کے ہیں " اس نے اپنی بات جاری رکھی "صاحب, کچھ ہوا ہے کیا ؟"
"نہیں, ایسی کوئی بات نہیں ہے, بس ادھر سے گزرا کرتا تھا تو تم لوگوں کو بیلچے کے ساتھ دیکھ کر یہ خواہش ہوتی تھی کہ پوچھوں, تم لوگ کرتے کیا ہو! "...اسکے کے چہرے کے تاثرات سے ایسا لگ رہا تھا کہ اسے میری باتوں پر یقین نہ ہو...
"صاحب, کہانیاں لکھتے ہیں, انہیں ایسی باتوں میں بہت دلچسپی ہے " میرے ساتھ کھڑے اَملان بیچ میں بول پڑا... اتنی دیر تک وہ اپنی موبائل میں گم تھا مگر اب محسوس ہوا کہ وہ ہماری باتیں غور سے سن رہا تھا..
"ویسے تم لوگ کہاں سے ہو ؟ بہار یا یوپی ؟" میں نے دوستانہ لہجے میں پوچھا...
"صاحب, ہم لوگ جھاڑکھنڈ سے ہیں, وہ سامنے فلائی اوور کے نیچے رہتے ہیں, یہی کوئی پچیس تیس لوگ ہیں, سبھی ایک ہی گاؤں سے ہیں " اس نے کراسنگ سے کچھ دور شمال کی سمت ایک فلائی اوور کی طرف اشارہ کیا مگر مجھے اندھیرے کی وجہ سے وہاں کچھ نظر نہیں آیا...
اَملان نے اپنی گھڑی کی طرف اشارہ کیا کہ دیر ہو رہی ہے, اسے فلیٹ پہنچ کر کچھ پینڈنگ کام نپٹانے تھے... میں نے اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے اس نوجوان سے اس کا نام پوچھا اور ڈرائیور کو گاڑی اسٹارٹ کرنے کیلئے کہا... املان گاڑی میں بیٹھ چکا تھا...
"ارے بھائی, تم نے اپنا نام کیا بتایا ؟ راجو ؟" املان اس سے مخاطب ہوا... "ایک بات بتاؤ, تم لوگ کام ختم کرکے واپس کیسے آتے ہو ؟"
"سر, وہی گاڑی لوٹتے وقت ہمیں یہاں اتار دیتی ہے, ورنہ ادھر آنے والی کسی خالی گاڑی میں واپس چلے آتے ہیں, اس لائن میں ہمیں سبھی گاڑی والے پہچانتے ہیں " راجو نے تھوڑا مسکراتے ہوئے کہا...
گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی اَملان نے اپنی بک بک شروع کردی. مجھ سے ایک سال جونیئر ہونے کے باوجود ہمارے تعلقات دوستانہ قسم کے تھے. ہم ایک ہی ہاؤسنگ میں رہتے تھے, اس کی شادی نہیں ہوئی تھی اور میں ایک فورسڈ بیچلر کی حیثیت سے زندگی گزار رہا تھا...
"دادا, تم نے راجو کے مسلس (muscles) دیکھے ؟" اس نے بنگلہ میں کہا "اسکی بازوؤں کی مچھلیاں ؟ بہت گٹھا ہوا جسم ہے "اس نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی...
" اگر دو آدمی ایک پوری لاری خالی کرسکتے ہیں تو تم اندازہ لگا ہی سکتے ہو کہ کتنی محنت کرنی پڑتی ہوگی! " میں نے گاڑی کے شیشے اٹھاتے ہوئے کہا..
"اور ہماری طرف دیکھو! اتنی ڈائٹ کرتے ہیں پھر بھی ہمارا مدھیہ پردیش نکلتا ہی جا رہا ہے " اس نے اپنے اور میرے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا " جانتے ہو, ایسے لوگوں کی بیویاں انہیں چھوڑ کر نہیں بھاگتی, چاہیں یہ انہیں کتنا ہی کیوں نہ ماریں پیٹیں... ان سے بہت خوش رہتی ہیں... یہی حال رکشے اور سائیکل وین چلانے والوں کا ہے... اونچی سوسائٹی کی عورتوں میں فرسٹریشن زیادہ ہے "
"تم پھر شروع ہوگئے! " میں نے اسکی طرف مصنوعی ناراضگی سے دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا " بیٹا, یہ سب بکواس فلسفہ بند کرو... جسم کے ساتھ ساتھ دل کی خواہشات بھی ہوتی ہیں جنہیں پورا کرنے کیلئے ہرے ہرے نوٹ کی ضرورت پڑتی ہے... شادی کرو, تب سمجھ میں آئے گا "...میں نے ریئر ویو میرر (Rear View Mirror) میں دیکھا, میرا ڈرائیور مسکرا رہا تھا... ہماری گاڑی ہاؤسنگ کیمپس میں داخل ہو چکی تھی... املان کو اسکے فلیٹ کے سامنے ڈراپ کرکے میں اپنے کوارٹرز کی طرف چل پڑا ـ
اگلے چند ہفتے اگرچہ بہت مصروفیت میں گزرے مگر دل میں ہمیشہ یہ خواہش بار بار اپنا سر ابھارتی رہی کہ ایک بار بیلچے والوں کی طرف رخ کروں, انکے ڈیرے کو ایک نظر دیکھنا تھا... انکے رہن سہن, معمولات زندگی, انکے خواب... انکی زندگی میں ذرا جھانکنے کی چاہت مجھے پریشان کئے ہوئے تھی... ایک اتوار کو مجھے موقع مل ہی گیا... اپنی بائیک اٹھایا اور سیدھے انکے ڈیرے پر پہنچ گیا... راجو کو تلاش کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی...وہ اس وقت اپنی چار پائی پر لیٹا ہوا تھا اور دیا سلائی کے تنکے سے اپنے کان صاف کر رہا تھا... مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھا... وہ دن کے کھانے کا منتظر تھا, اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی میں اسکی چار پائی پر بیٹھ گیا... میں سول میں تھا اس لئے آسانی سے پہچانے جانا مشکل تھا...
"ادھر سے گزر رہا تھا تو اچانک تم لوگوں پر نظر پڑ گئی, بتاؤ کیسا چل رہا ہے ؟" میں نے بہانہ بناتے ہوئے پہل کی... یہ لوگ چھوٹے چھوٹے خیمے بنا کر رہ رہے تھے اور وہاں بہت ساری چھوٹی بڑی چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں... ایک جگہ لکڑی جلا کر چاول ابالا جا رہا تھا, پاس ہی ایک بڑی دیگچی میں آلو, پٹل, ابلا ہوا انڈا ایک ساتھ پک رہے تھے... دیسی شراب کی کچھ بوتلیں بھی بکھری پڑی تھیں... ایک دو عورتیں بھی نظر آ رہی تھیں... ان چیزوں کو میں بغور دیکھ ہی رہا تھا کہ راجو گویا ہوا "صاحب, ہم نے کئی بار راستے میں آپ کو ڈیوٹی پر دیکھا مگر بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی... آپ تو سول ڈریس میں پہچانے ہی نہیں جاتے! "
"ہاں, زندگی ہی کچھ ایسی ہو گئی ہے, ہر وقت کام پڑا رہتا ہے " میں نے یونہی بات بڑھاتے ہوئے کہا " تب, تم لوگوں کا کام کیسا چل رہا ہے ؟ تمہاری شادی ہو گئی ؟"...
"دو سال ہوئے شادی کے... کچھ مہینے پہلے ہی گاؤں سے واپس آیا ہوں... کچھ روپے پیسے کما لوں, پھر گاؤں جاؤں گا" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس کے پیلے پیلے دانت نظر آئے... کھینی کی وجہ سے دانت گندے ہوگئے تھے...
آج میں اسی مقصد سے آیا تھا کہ ان کے بارے میں کرید کرید کر زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھا کروں, چنانچہ کئی سوال میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے...
"تم لوگ کسی بھی گاڑی میں اٹھ جاتے ہو, کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ گاڑی والا تمہیں واپس پہنچائے گا یا نہیں ؟ رات کو یہاں ڈر نہیں لگتا ؟"
"صاحب, ہمیں تو ڈر پولس والوں سے لگتا ہے جو یہاں سے ہمیں بھگانے چلے آتے ہیں " اس نے ڈھٹائی سے کہا, پھر اپنی لنگی سیدھی کرتے ہوئے بولا " اب یہاں کمانے آئے ہیں, گھر پیسے بھیجنے ہوتے ہیں, تھوڑا بہت رسک تو لینا پڑتا ہے "...
"تم لوگوں کو اپنی بیویوں کی یاد نہیں آتی ؟ اتنے دن اکیلے کیسے رہ لیتے ہو " میں نے اسے ذرا چھیڑتے ہوئے پوچھا...
تھوڑی دیر کیلئے وہ کچھ ہچکچایا, پھر نظریں جھکاتے ہوئے کہا " یہاں ایک جگہ ہے, ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہیں چلے جاتے ہیں " اس کے کچھ رازدارانہ انداز میں آہستگی سے گویا ہوا " رات کو اکثر ادھر نئی نئی گاڑیاں بھی آتی ہیں اور اس میں بھی کچھ نوجوان جاتے ہیں, سردار سب طے کرتا ہے... اچھے پیسے ملتے ہیں "...
"کہاں لے جاتے ہیں ؟" میں نے بھی سرگوشی میں بات کرنے کی ایکٹنگ کی...
"کبھی کسی ہوٹل میں تو کبھی کبھار گاڑی میں گھوم پھر کر چلے آتے ہیں " اس نے دھیرے سے کہا..وہ کچھ شرما رہا تھا...
"تم بھی تو گئے ہوگے ؟" میں نے ٹٹولنے والی نگاہوں سے اسکی آنکھوں میں دیکھا... وہ جھینپ گیا..
"صاحب, میں بھی کبھی کبھار چلا جاتا ہوں... پیسے اچھے ملتے ہیں مگر مجھے اپنے جانگوں کے مقابلے بازوؤں کی کمائی پر زیادہ فخر ہے " اس نے جوش میں آکر کہا..
اس دوران کھانا تیار ہو چکا تھا, لوگ اپنے اپنے خیمے کے سامنے چارپائی پر بیٹھ چکے تھے اور انکے سامنے سال پتے کی پلیٹ پر گرما گرم بھات اور مخلوط سبزی پروسے جا رہے تھے... بھات کی مہک میرے نتھنے سے گھس کر میرے کھانے کی اشتہا کو بڑھا رہی تھی... ان لوگوں کی خوراک کافی اچھی تھی, پلیٹ پر چاول کا انبار اور پھر اس پر گرما گرم سالن... ایک عمر دراز شخص نے راجو کی چارپائی پر بھی اس کا کھانا پروسا... راجو نے میری طرف دیکھا اور جھجھکتے ہوئے بولا "صاحب, ہم غریبوں کا یہی کھانا ہے, روکھا سوکھا... آپ کو کہنے میں لاج لگ رہی ہے, آپ کیلئے بھی کھانا لگوا دوں ؟"
"نہیں, تم کھاؤ... میں پھر کبھی ادھر آؤں گا... تم سے باتیں کرنے میں مزہ آیا " میں نے اٹھتے ہوئے کہا اور اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا... بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے دیکھا تو راجو کھانے میں مگن ہو چکا تھا... ایک نظر میری طرف دیکھا پھر کھانا پروسنے والے سے مخاطب ہو گیا...
کچھ دنوں کے بعد ایک شام پھر میرا ادھر جانا ہوا... راجو بیلچہ لئے کھڑا تھا... مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھا... اس بار میں نے اسے چائے اور سگریٹ کی پیشکش کی... چائے وہ خود لیکر آیا... اب وہ تھوڑا کھل چکا تھا... ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا... چونکہ میں اپنے یونیفارم میں تھا اس لئے اس کے ساتھی اسے بار بار دیکھ رہے تھے اور اسے میرا "سورس " سمجھ رہے تھے... اس کے بعد اکثر و بیشتر ہماری وہاں ملاقاتیں ہوتی رہیں... راجو سے ایک قسم کا لگاؤ ہو گیا تھا... ایک بار اس نے بتایا کہ حال ہی میں وہ ایک موٹی سیٹھانی کے ساتھ گیا تھا... وہ اس کے پرفارمنس سے بہت خوش ہوئی تھی اور اسے پیسے کے ساتھ ساتھ ایک مہنگے ہوٹل میں کھانا کھلائی تھی اور وہاں اسے وڈکا جیسی مہنگی شراب نصیب ہوئی تھی...
پھر میرا تبادلہ ایک دوسرے ضلعے میں ہوگیا... اس بار ایڈمنسٹریٹو طرز کی پوسٹنگ تھی... اس لئے باہر بہت کم نکلنا ہوتا تھا اور سارا دن مختلف فائلوں میں سر جھکائے میں قلم گھسیٹتا رہتا تھا... سامنے دیوار پر ٹی وی چلتی رہتی تھی, کبھی اسپورٹس تو کبھی نیوز چینل... ایک شام ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی... صبح صبح ایک پل گر گئی تھی اور سات لوگ مارے گئے تھے, جگہ کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی, نیوز میں جائے وقوعہ پر رسکیو آپریشن میں املان کو بار بار دکھایا جا رہا تھا... میں نے اَملان کو فون لگایا... وہ کچھ الجھن میں پریشان لگ رہا تھا, مختصر سا جواب دیا " دادا, تمہارا راجو پل کے گرنے سے ملبے میں دب کر مر گیا ہے, اوپر سے حکم ہے, سب بیلچے والوں کو بھگانا ہے, رات کو تفصیل سے بات کرتا ہوں " اور فون کٹ گیا...
مجموعی طور پر افسانہ مجھے پسند آیا۔ جیسے جیسے افسانہ آگے بڑھتا ہے راجو کے لیے ہمدردی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ ان مزدوروں کے لیے مزید جاننے کی خواہش بھی پیدا ہوتی ہے۔ پڑھتے ہوئے کب افسانہ ختم ہو جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہ بیانیہ کا کمال ہے۔ منظر نگاری اور کردار نگاری بھی جان دار ہے۔ *بیلچے والے* کے لیے مقصود حسن صاحب کو مبارکباد 💐 اور ایوینٹ میں شمولیت کے لیے نیک خواہشات۔ اس ایوینٹ کا آغاز بھی شاندار ہے اس کے لیے منتظمین کو بھی مبارکباد۔
0 Comments