Ticker

6/recent/ticker-posts

سائبر اسپیس (افسانہ نگار: غضنفر)

سائبرا سپیس

غضنفر

پروفیسر غضنفر کا شمار اردو فکشن کے معدودے چند اہم قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ 9 ناول اور دو افسانوی مجموعوں کے علاوہ مختلف اصناف پر موصوف کی شایع ہوئی کتابوں کی تعداد 14 ہے۔ اس طرح کل 24 کتابیں پروفیسر غضنفر کی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ شاعری، ڈرامہ، تنقید، خاکہ اور بچوں کا ادب وغیرہ سبھی کچھ ہے آپ کے حیطہ اظہار میں۔ آپ پر لکھے گئے اکیڈمک تحقیقی و تنقیدی مقالوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہے، اس کے علاوہ دیگر تحقیقی کاموں میں بھی کئی اسکالرز نے آپ کے فکر و فن کو موضوع بنایا ہے۔ پیشہ سے اردو کے قابل مدرس ہیں، اسی پیشے کے لیے سولن (ہماچل )، لکھنؤ، اور علی گڑھ جیسے شہروں سے وابستہ رہے اور اکادمی برائے فروغ استعداد اردو میڈیم اساتذہ جامعہ ملیہ، اسلامیہ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ سردست شاہین باغ دہلی میں مقیم ہیں۔
درج ذیل یہ چند انعامات و اعزازات کی فہرست ہے جو شعبہء علم و ادب میں پروفیسر غضنفر کو ان کی گراں قدر خدمات کے عوض تفویض کیے جا چکے ہیں۔
  •  تخلیقی ذہانت ایوارڈ (نیا سفر اردو میگزین، دہلی) 
  •  ناول ’’پانی ‘‘ پر اترپردیش اور بہار اردو اکادمی کا انعام 
  •  ناول ’’کینچلی ‘‘ پر اترپردیش اردو اکادمی کا انعام 
  •  ناول ’’کہانی انکل‘‘ پر اترپردیش اردو اکادمی کا انعام 
  •  ناول "دویہ بانی" پر بہار اردو اکادمی کا انعام 
  •  "تدریس شعر و شاعری" پر اترپردیش اردو اکادمی کا انعام 
  •  "حیرت فروش" پر اترپردیش اردو اکادمی کا انعام 
  •  اقبال سمان 2018 
  •  اس کے علاوہ، اسی سال فکشن کے لیے مجموعی خدمات پر یو پی اردو اکادمی نے انعام سے نوازا، مجموعی خدمات پر بہار اردو اکادمی بھی ایوارڈ دے چکی ہے۔ 
وسیم عقیل شاہ
٭٭٭

شتابدی اکسپرلیں،سو پر فاسٹ میل پسنجرٹر ین، بس، بدئبیت، بے ہنگم، بدبودار دھواں چھوڑتی اور پھٹپھٹ کرتی میٹاڈ ور، ہچکولے کھاتی رکشا اورتنگ و پرخار پیدل کا سفر طے کر کے وہ اس بستی میں داخل ہوا۔
دھند اور دھول سے اٹی بے جان اور سنسان بستی کو دیکھتے ہی جیتی جاگتی جگمگاتی شہری آبادی کا ایک پُرنور منظر اس کی آنکھوں میں جھلملا اُٹھا۔
کچھ دیر تک آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے دونوں منظروں میں سے روشن منظر کہیں چھپ گیا اور سیاہ منظر اپنی آنکھیں کھول کر سامنے کھڑا ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی جزیرے میں پہنچ گیا ہے۔ اس کے اردگرد بہت سارے لوگ جمع ہو چکے تھے۔ اور اسے وہ اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ان کی نگری میں کسی نئی دنیا کی کوئی مخلوق آ گئی ہو۔
وہ وہاں کی ایک ایک چیز کو حیرت و استعجاب سے دیکھتا اور پوچھ تاچھ کرتا ہوا اس بستی کے اس آدمی کے پاس گیا جس سے اس کے مشن میں رہنمائی ملنے والی تھی۔
’’تمھارا نام چورسیا ہے؟‘‘ اس نے اس آدمی کو سر سے پا تک گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’جی صاحب!‘‘
’’تم پڑھے لکھے ہو؟“
’’تھوڑا تھوڑا۔“
’’کہاں پڑھا؟‘‘
’’آپ ہی جیسا ایک صاحب گھر کے کام کاج کے لیے مجھے اپنے ساتھ لے گیا تھا،وہیں۔“
’’کتنے دنوں تک رہے؟‘‘
’’کافی دنوں تک“
”چلے کیوں آئے؟“
”صاحب کہیں دور چلا گیا اور گھر والوں کی یاد بھی آنے لگی۔ اس لیے۔“
یہاں کیا کرتے ہو؟“
’’کام ‘‘
’’کیا کام؟“
’’محنت مزدوری کا کام ‘‘
’’میں تمھارے پاس ایک ضروری کام سے آیا ہوں۔“
’’مجھ سے کیا کام ہے صاحب؟“ چور سیانے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’مجھے تمھاری مددچاہیے۔“
’’میری مدد؟‘‘اس کی حیرت اور بڑھ گئی۔ 
’’ہاں تمھاری مدد“
’’کیسی مددصاحب؟“
’’میں یہاں کے لوگوں کے بیان پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔“
یہ سنتے ہی چورسیا کے ذہن میں کسی کتاب کا ایک صفہ کھل گیا۔ 
’’گائے ایک چو پایا جانور ہے۔ اس کی دو آنکھیں ہوتی ہیں۔ دوکان اور دوسینگ ہوتے ہیں۔ ایک ناک اور ایک پونچھ ہوتی ہے۔ وہ اجلے، کالے بھورے اور چتکبرے رنگ کی ہوتی ہے۔ گائے دودھ دیتی ہے۔ اس کے دودھ سے دہی جمتا ہے۔ مکھن نکلتا ہے۔ گھی ملتا ہے۔ وہ سال میں ایک بار بچھڑادیتی ہے۔ اس کا بچھڑا بڑا ہوکر بیل بنتا ہے۔ بیل بوجھ ڈھوتا ہے۔ گائے کی کھال سے جوتے اور بیگ بنتے ہیں۔ 
اس کی چربی اور ہڈی سے طرح طرح کی وستو ئیں بنائی جاتی ہیں۔‘‘
’’صاحب میں جانتا ہوں آپ کیا کہیں گے؟‘‘
’’ کیا کہا؟ تم جانتے ہو کہ میں کیا لکھوں گا ؟‘‘ وہ چونک کر چور سیا کی طرف دیکھنے لگا۔
’’جی صاحب‘‘
’’اچھا تو بتاؤ کہ میں کیالکھوں گا؟‘‘
”آپ لکھیں گے کہ چندن باڑی کے لوگ ناٹے اور کالے ہوتے ہیں۔ ان کا شریر گندا ہوتا ہے۔ دانت پیلے ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں کیچڑ بھرارہتا ہے۔ ان کے گال پچکے ہوئے ہوتے ہیں اور چھاتی کی ہڈیاں باہرنکلی ہوتی ہیں۔ وہ باجرے کی روٹی، اول کا بھرتا، موٹے چاول کا بھارت اور کھساری کی دال کھاتے ہیں..... ‘‘
’’میں لیکھ لکھنے نہیں آیا ہوں۔“
’’تو کیا لکھنے آئے ہیں صاحب؟‘‘
’’ر چنا‘‘
’’رچنا معنی؟‘‘
’’رچنا معنی کویتا اور.......... ‘‘
کویتا! سمجھا؟‘‘ 
سچی باتیں کہنا سیکھ 
سب سے ہل مل رہنا سیکھ 
سیدھی راہ پر چلنا سیکھ 
سب کا آدر کرنا سیکھ
طوفاں سے ٹکرا کر بھی 
ہرپل آگے بڑھنا سیکھ
’’یہی ناصاحب۔‘‘
’’ایسی ر چنانہیں۔‘‘
’’تو کیسی رچناصاحب؟‘‘
’’ایسی رچنا جس میں یہاں کے لوگوں کا اصلی جیون سما جائے۔ یہاں کی آتما اس میں پوری طرح رچ بس جائے۔‘‘ چورسی کی آنکھوں میں سارا گاؤں سمٹ آیا۔ ایک ایک گھر، ایک ایک آنگن بھر گیا۔ ایک ایک چہرہ اپنے در دو کرب کے ساتھ اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
چور سیا کی آنکھیں جو برسوں سے سوکھی پڑھی تھیں ایک دم گیلی ہو گئیں۔ 
’’یہاں کی آتما آپ کو دکھائی دے گی صاحب؟“ اس کی آواز بھی بھیگی ہوئی تھی۔
’’کیوں نہیں تم مدد کرو گے تو ضرور دکھائی دے گی۔‘‘
’’ہم سے کیامد دچا ہیےصاحب؟‘‘
’’یہی کہ تم اپنے بھیتر کا حال بتاو۔ اپنے لوگوں سے بات کراؤ۔ اپنی عورتوں سے ملواؤ۔‘‘
’’عورتوں سے !‘‘ چورسیا کی آواز کا بھیگا بین یکایک غاب ہوگیا۔ جیسے بھاپ بن کر اڑ گیا ہو، وہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
’’چورسیا تم غلط سمجھے۔ در اصل میں یہاں کی عورتوں سے اس لیے ملنا چاہتا ہوں کہ ان کا حال میں ان کی زبان سے سن سکوں۔ یہ جان سکوں کہ وہ کس طرح رہتی ہیں؟‘‘
’’معاف کرنا صاحب! میں نے سمجھا شاید..... پرصاحب !وہ اپنے بھیتر کاحال آپ کو کیسے بتائیں گی جو اپنے مردوں تک کونہیں بتاپاتیں۔“
’’کیوں نہیں بتا پائیں؟‘‘
’’یہ تو وہی جانیں صاحب۔‘‘
’’تم لوگ بھی پوچھتے نہیں؟‘‘
’’پوچھا تو تب جائے تاصاحب جب کوئی جاننا چا ہے۔“
’’تو کیا سچ مچ تم لوگ جاننا نہیں چاہتے؟‘‘ اس کی حیرت بڑھ گئی۔
’’نہیں۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ہمارا اپنادکھ کیا کم ہے کہ ہم ان کا دکھ جاننے کا پریاس کریں۔‘‘
’’سنا ہے تم لوگ اپنی عورتوں کو مارتے بھی ہو؟“
’’آپ نے ٹھیک سنا ہے صاحب“
’’کیوں مارتے ہو؟“
’’سچی بات بولوں صاحب۔“
ہاں، بولو ‘‘
’’وہ کمزور ہیں اس لیے۔“
مطلب؟“
’’مطلب صاف ہے صاحب !مارتو کمزور ہی پر پڑتی ہے نا۔ چاہے بھگوان کی مار ہو چاہے شیطان کی۔ ڈکھ اور مصیبت میں جب ہمارا کوئی بس نہیں چلتا تو ہم اپناغصہ اپنی عورت پر نکالتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے صاحب ہم اپنے بھیتر کی بھڑاس کس پر نکالیں۔ ان پیڑوں پر یا اس دھرتی پر؟‘‘
چور سیا کی بات سن کر اس کی نظر میں دھرتی پر مرکوز ہوگئیں۔ اسے محسوس ہوا جیسے چور سیا نے کسی گہرے فلسفے کی طرف اشارہ کر دیا ہو۔ زمین سے انسان کے رشتے کی بہت ساری گتھیاں اُبھرتی چلی گئیں۔ اس کاو ہن دیرتک گتھیوں میں الجھا رہا۔ کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے چور سیا کو پر مخاطب کیا۔
’’اچھا یہ بتاؤ تم لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہو؟“
چور یا اس سوال پر کچھ دیر سوچتا رہا۔ بیچ بیچ میں اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ پھر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’اس طرح۔‘‘
اس کی نظر میں اشارے کی طرف مڑ گئیں۔
کچھ فاصلے پرکنکریلی زمین کے اوپر ایک مریل بچہ جس کا پیٹ ڈھول کی طرح پھولا ہوا تھا۔ چھاتی کی ہڈیاں باہرنکلی ہوئی تھیں۔ بے سدھ پڑا تھا اور اس کے پاس ہی ایک خارش زدہ پلا لیٹا تھا۔ دونوں کے اوپرمکھیاں بھن بھارہی تھیں۔
اس کی نگاہیں بچے اور پلے کے پاس سے لوٹ کر دوبارہ چور سیا کے چہرے پرمرکوز ہوگئیں۔
چور سیا کی آنکھیں دیا لونگاہوں کی گرمی سے پگھل کر موم کی طرح ٹپکنے لگیں۔ ایک کی آنکھیں خاموشی سے اپنا درد بیان کرتی رہیں اور دوسری کی آنکھیں اسے دیر تک تکتی رہیں۔
’’تمھاری اِچھائیں کیا ہیں ؟ ‘‘اس نے کافی دیر بعد چور سیا سے دوسرا سوال کیا۔
’’وقت پر دو جون کی روٹی۔ صاف پانی۔ موسم سے بچانے والا کپڑا اور بچھاون والا بستر‘‘
’’بس‘‘
’’صاحب آپ نے بس‘‘ کیوں کہا؟‘‘
’’بس نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟ تم نے جوگنوائی ہیں یہ اچھائیں تھوڑی ہی ہیں۔‘‘
’’یہ اِچھا ئیں نہیں تو اور کیا ہیں؟‘‘
’’یہ تو آوشیکتائیں ہیں۔‘‘
’’اور اِچھائیں کیا ہوتی ہیں صاحب؟‘‘
’’اِچھا ئیں آوشیکتاؤں سے اوپر ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا تھاتمھاری اِچھائیں بھی ہماری طرح ہوں گی۔ یعنی تمھیں بھی گاڑی، بنگلہ، نوکر چاکرکرسی عیش و آرام وغیرہ کی اچھّا ہوگی۔‘‘
’’صاحب آپ ہم پر کچھ لکھنے آئے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں، کیوں؟‘‘
’’آپ ہم نہیں لکھ سکتے ؟‘‘
’’کیوں نہیں لکھ سکتے ؟‘‘ وہ چونک پڑا۔
’’اس لیے کہ ہم آپ کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔‘‘
’’کیوں بھائی!سمجھ میں کیوں نہیں آسکتے “
’’ہم آپ سے بالکل الگ ہیں صاحب۔ بالکل الگ۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ ‘‘
’’ہم کو قریب سے دیکھے بنا آپ ہمیں نہیں سمجھ سکتے۔‘‘
’’ہم تو اسی لیے آئے ہیں کہ قریب سے دیکھیں۔‘‘
’’تو ہماری ایک رائے مانیے صاحب۔‘‘
’’کچھ دنوں تک آپ ہم میں رہے۔“
’’ٹھیک ہے کچھ روز ہم تمھارے ساتھ رہیں گے۔‘‘
’’صرف ساتھ رہنے سے کام نہیں چلے گا۔“
’’تو؟‘‘
’’آپ کو ہمارا رہن سہن اپنانا ہوگا۔ ہمارا پہناوا پہنا ہوگا۔‘‘
’’تمھارا پہناوا پہنا ہوگا؟‘‘ اس کی نگاہیں چور سیا کی میلی پیلی دھوتی پر مرکوز ہوگئیں۔دھوتی کامیل اس کی پتلیوں میں چبھنے لگا۔
’’اس رنگ کو اپنے ذہن سے جھٹک دو اور بھی کڑا کر کے یہاں رہنے اور ان لوگوں میں بسنے کا من بناؤ“
اس کے اندر کی آواز نے اسے جوش دلایا۔ 
’’پہن لیں گے۔‘‘اس نے مضبوط لہجے میں اسے جواب دیا۔
’’ہمارا کھانا کھانا ہوگا۔‘‘
’’تمھارا کھانا بھی کھائیں گے۔‘‘
’’ہماری طرح سونا ہوگا۔ ‘‘
’’سوئیں گے۔‘‘
’’ہم جو کام کرتے ہیں، کرنا پڑے گا۔ ‘‘
’’کام بھی کرنا پڑے گا؟‘‘
’’اور کیا، کام بھی کرنا پڑے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، کام بھی کریں گے۔‘‘
’’تو آپ ہماری طرح بن جائے۔“
”لو، بن جاتے ہیں۔‘‘
’’آپ اپنے یہ کپڑے اتاریئے۔ ‘‘
’’تار دیں گے، پہلے تم اپنا کوئی کپڑاتولا دو۔‘‘
’’سوکھیا! ارے او سوکھیا! تنک گھر سے ایک دھوتی تولا نا “
’’ابھی لایا کا کا‘‘ ایک میلی کچیلی دھوتی آگئی۔
’’لیجیے صاحب! اسے پہن لیجیے۔‘‘
دحوتی ہاتھ میں لیتے ہی بد بو کا ایک بھبکا اس کے نتھنوں میں سما گیا۔ اس کا چیره یک بارگی بگڑ گیا۔
’’برج موہن! بد بو جھیلنے کی عادت ڈالو۔ ٹھیک کرو چہرے کو۔‘‘
اندر سے آواز اٹھی اور اس نے بد بو برداشت کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ 
’’کپڑے کہاں بدلیں؟‘‘
’’یہیں، اور کہاں۔‘‘
’’لیکن یہاں سب کے سامنے شرم نہیں آئے گی ؟ ‘‘
’’صاحب اسے بھی آتارنا پڑے گا۔ ٹھیک ہے، فی الحال ادھر آڑ میں جا کر بدل لیجیے۔‘‘
وہ دھوتی لے کرآڑ میں چلا گیا۔ کپڑے بدل کر وہ چورسیا کے پاس آیا تو اسے دیکھ کر بچےکھلکھلا پڑے۔
میلی دھوتی اور اجلے بنیائن میں وہ سرکس کا جو کر دکھائی دے رہا تھا۔ بچوں کے ہنسنے پر اسے غصہ تو بہت آیامگر اس نے اپنے غصے پر قابو پالیا۔
’’لو تمھارے کپڑے تو ہم نے پہن لیے، بولو، اب اور کیا کرنا ہے؟‘‘
’’اب چلیے کام پر چلتے ہیں۔‘‘
’’کہاں؟“
’’جنگل میں‘‘
’’کس لیے؟‘‘
’’لکڑیاں توڑنے۔‘‘
’’لکڑیاں توڑنے؟‘‘ پہلے وہ چونکا، کچھ دیر تک خاموش رہا، پھر دھیرے سے بولا۔
’’اچھا چلو۔‘‘
بے راستے کے راستے پر چاتا ہوا تقریباًتیس چالیس منٹ بعد وہ چورسیا کے ساتھ جنگل پہنچا۔ جنگل پہنچتے پہنچتے وہ پسینے میں شرابور ہو گیا۔ دھوتی سے اس نے اپنے منہ کا پسینہ پونچھا اور ایک جگہ بیٹھ کر جنگل میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑانے لگا۔
’’صاحب! میں تو اس پیڑ پر چڑھ رہا ہوں۔ آپ بھی کسی پیڑ پر چڑھ جائیے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ اس نے اچھا تو کہہ دیا مگر پیڑ پر چڑھنا اس کے لیے آسان نہیں تھا۔
پوری ہمت جٹا کر وہ آگے بڑھا۔ ایک پیڑ پر چڑھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ ایک اور پیڑ پر ہمت آزمائی مگر جلد ہی پھسل کر نیچے آگرا۔
لگا تار وہ کئی پیڑوں کے پاس گیا، چڑھا، پھسلا گرا۔ آخر کار تیمور لنگ کی چیونٹی کی طرح ایک پیڑ پر چڑھنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
کافی احتیاط سے اس نے کچھ سوکھی لکڑیاں توڑیں اور اپنے کو گرنے سے بچاتا ہوا نیچےاتارلیا۔
احتیاط کے باوجود اس کے ہاتھ پاؤں میں خراشیں آگئی تھیں۔ ایک ہاتھ لہو لہان ہو گیا تھا۔
’’صاحب! آپ تو گھائل ہو گئے ہیں۔ لائیے آپ کے گھاؤ پرمٹی لگا دوں۔‘‘ اپنا گٹھر زمین پر رکھتے ہوئے چور سیا بولا۔
’’مٹی ! کیا کوئی دوانہیں مل سکتی ؟‘‘خوف آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔
’’صاحب !دوا آس پاس میں کہاں ملے گی۔ اس کے لیے بہت دور جانا پڑے گا۔ تب تک آپ کے شریر کا آدھا خون بہہ جائے گا۔ ڈریئے نہیں، میں مٹی کا لیپ لگا دیتا ہوں۔ اسی سے ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم تو یہی لگاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ مجبور اً اس نے حامی بھری۔
اس کے زخم پرمٹی لگ گئی مگر وہ اندر ہی اندر ڈرتا رہا کہ کہیں ٹٹنس نہ ہو جائے۔ اس موقعے کے اُسے جتنے منتر یاد تھے، سب پڑھ ڈالے اور دل ہی دل میں بھگوان سے پرارتھنا کرتا رہا کہ وہ ٹٹنس سے بچالے۔
’’صاحب ! آج بس اتنا ہی۔ باقی کل۔ اب گھر چلتے ہیں۔‘‘
گھر کا نام سنتے ہی ایک کوٹھی اس کی نگاہوں میں کھڑی ہوگئی، لان کے پھول اور دیواروں کے رنگ و روغن لہرانے لگے۔
چورسیا کے منع کرنے کے باوجود اپنی لکڑیوں کا گٹھر اس نے خود اٹھایا اور راستے میں گرتا پڑتا جنگل سے بستی میں آ گیا۔
دونوں کے آگے دوپہر کا کھانا رکھ دیا گیا۔
دھبے دار اور جگہ جگہ سے بچکی ہوئی المونیم کی تھالی میں ایک عجیب طرح کا بھرتا اور موٹی، مٹ میلی ٹھیکرے جیسی سخت روٹی کو دیکھتے ہی اس کی ناک بھنوں سکڑ گئی۔ مگر پیٹ کی آگ اس کے ہاتھ کو روک نہ سکی۔
پہلے ہی لقمے میں اس کا منہ بگڑ گیا حلق تک پہنچتے ہی اول نے گلا پکڑ لیا۔ پانی کی طلب محسوس ہوئی لیکن پانی نے گلا اور دبا دیا۔ اس نے صرف سوکھی روٹی سے پیٹ بھرا۔ روٹی سے اس کا تالو بھی کھل گیا۔
’’کیا روز یہی بھوجن ملے گا؟‘‘سختی سے روکنے کے باوجود یہ سوال اس کے لبوں سے باہر آ گیا۔
’’نہیں، دوسرے پر کار کا کھانا بھی ملے گا۔‘‘ چور سیانے ہمدردانہ لہجے میں جواب دیا۔
کھانا کھا کر وہ ایک ڈھیلی ڈھالی چارپائی پر لیٹ گیا۔ اول کی جلن تو کچھ کم ہوئی تھی مگر تالوکی تکلیف اب بھی برقرا تھی۔
باجرے کی روٹی کسی دھار دار ناخن اور نکیلے دانتوں والے را کشش کی طرح اس کے سامنے منڈلانے لگی۔
روٹی میں چھپے نیش نشتر سے تنگ آ کر اس کی نگاہیں اپنے گھر کی ڈائننگ ٹیبل پر پہنچ گئیں۔
پراٹھے، ٹوسٹ مکھن، میٹ مچھلی، دودھ دہی، پھل سبنری، جام جیلی اس کا استقبال کرنے لگے۔
ایک وقت کے کھانے میں گھر یاد آ گیا۔ انھیں دیکھو!اب کھانا نہ جانے کب سے یہ چپ چاپ کھاتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے حلق اور تالوں کی تکلیف کا اندازہ لگاؤ! کب سے وہ جل رہے ہیں؟ کب سے وہ چھل رہے ہیں؟
اس کے اندرون کی آواز نے اسے اپنے گھر کی ڈائننگ ٹیبل سے واپس کھینچ لیا۔ اور اس کا ذہن اپنے جسم سے نکل کر بستی والوں کے حلق میں پہنچ گیا۔
رات کا کھانا آیا تو چور سیا بولا۔ 
’’صاحب! اس وقت اچھا سالن پکا ہے۔‘‘
’’کیا پکا ہے؟‘‘
’’مانس پکا ہے۔“ 
’’مانس کہاں سے لائے ہو؟‘‘
’’ایک ڈانگر مرا تھا۔ اس کا مانس لائے ہیں۔‘‘
’’مرے ہوئے ڈانگر کامانس؟‘‘
’’جی صاحب۔‘‘
’’کیا تم لوگ مردار بھی کھاتے ہو؟“ 
’’ہاں صاحب!۔ اور آپ لوگ؟‘‘
’’نہیں، ہم نہیں کھاتے۔‘‘ 
’’کیوں صاحب؟ ‘‘
’’مردار کھانا منع ہے۔“
’’ہمیں تو کسی نے بتایا ہی نہیں صاحب۔ ٹھیک ہے، ہم آپ کے لیے رگڑا پسوا دیتے ہیں۔‘‘
’’رگڑ اکیا؟‘‘
’’مرچ اور لہسن کی چٹنی‘‘
’’او۔ ٹھیک ہے چلے گا۔‘‘
اس کے لیے مانس کی جگہ رگڑا آگیا۔ رگڑے کے ساتھ اس نے بڑی مشکل سے ایک روٹی کھائی اور ڈھیر سارا پانی پی کر اس کوٹھری میں چلا گیا، جہاں اس کے سونے کا بندوبست کیا گیا تھا۔
کوٹھری میں گھستے ہی سیلن اور مٹی کے تیل کی بد بو نے اسے بے چین کر دیا۔ بستر کے نام پر وہاں مونج کے بانوں والی ایک چارپائی پڑی تھی، وہ اسی ننگی چارپائی پر لیٹ گیا۔
کچھ دیر بعد مچھروں کی فوج نے اس پر یلغار کر دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے فوج برسوں کی بھوکی پیاسی ہو۔ زہر میں بجھے تیرو تبر اس کے جسم میں چبھ چبھ کر ٹوٹنے لگے۔ ایک طرف سے جنگ کی وہ ہولناکیاں جھیل ہی رہا تھا کہ دوسری طرف سے بھی حملہ شروع ہو گیا۔ اس کی پیٹھ جلنے لگی۔ جیسے کسی نے اس میں آگ کے گولے داغ دیے ہوں۔
ٹارچ جلاکر دیکھا تو بے شمار موٹے موٹے کھٹل اس کے خون کے پیاسے ہورہے تھے۔ اس نے بھی جوابی کارروائی شروع کردی۔ اس کے دونوں ہاتھ خون کے دھبوں سے بھر گئے۔
کھٹل کومسل کر وہ پھر سے لیٹ گیا۔ مگر جلد ہی چار پائی کی خفیہ چھاونیوں سے فوج کی ٹکڑیاں نکل کر پھر سے میدان میں آگئیں۔
مچھروں اور حملوں کے ڈنک نے اسے چارپائی سے زمین پر اتار دیا۔ اس کی مجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے؟ کہاں جائے؟ کس طرح رات بتائے۔ وہ کوٹھری سے باہر آ کر ٹہلنے لگا۔
اچانک اس کی آنکھوں میں اس کا بیڈروم کھل گیا۔ ڈنلپ کے گدے، پھول دار ریشمی چادر، نرم ملائم تکیے، پرفیوم کی خوشبو اور خوبصورت شریک سفر کالمس اس کی تکلیف میں اور اضافہ کرنے لگے۔
دفعتاً ایک گاؤن اس کی آنکھوں میں لہرا گیا۔
کم سے کم گاؤن ہی پہن لیا جائے کچھ تو بچا ہو سکے گا۔ یہ سوچ کر وہ کوٹھری کی طرف لوٹنے لگا۔
کسی نے دیکھ لیا تو؟
اس وقت کون دیکھے گا ؟ صبح لوگوں کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ اس سے سوٹ کیس میں رکھ دے گا۔
وہ سوٹ کیس کے پاس پہنچ کر اسے کھولنے لگا کہ اس کے اندر کی آواز پھر گونج پڑی۔
یہ کیا کر رہے ہو؟ مانا کہ دوسرے نہیں دیکھ رہے ہیں مگرتم تو دیکھ رہے ہو؟ کیا اتنی جلد ہار گئے ؟ تم تو یہاں کی زندگی جاننے چلے تھے۔ ان کے دکھ درد کو قریب سے دیکھنے اور انہیں محسوس کرنے کے لیے رکے تھے ؟ چور سیا صحیح کہہ رہا تھا کہ تم اس کے جیون پر نہیں لکھ سکتے۔ تم کشت نہیں جھیل سکتے۔ جاؤ! چلے جاؤ ! بھاگ جاؤ؟
نہیں۔ سناٹے میں نہیں کی آواز دور تک گونج پڑی۔ اس کا ہاتھ ٹھٹھک گیا۔ چابی تالے میں گھومنے کے بجائے باہرنکل آئی۔
وہ سلین اور تیل کی بد بو سے بھری کوٹھری میں ننگی چار پائی پر پھر سے لیٹ گیا۔ رات بھر مچھر اورکھٹمل اس پر جارحانہ وار کرتے رہے اور وہ اپنے تخلیقی جوش وخروش کے بل بوتے پر ان کے ڈنک اورٹیس کو سہتا رہا۔
صبح جب چورسیا اس سے ملنے آیا تو وہ اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’صاحب، آپ کے شریر پرتو مچھروں نے بری طرح گودنا گو ددیا ہے۔‘‘
چورسیا کے بتانے پر جب اس نے اپنے آپ کو دیکھا تو اسے محسوس ہوا جیسے راتوں رات اس کے جسم پر چیچک نکل آئی ہو۔
’’صاحب آپ بے کار میں اپنا جیون خراب کر رہے ہیں۔ آپ واپس چلے جایئے ور نہ ہمارے ساتھ رہ کر آپ کا بھی۔۔۔“
’’نہیں نہیں، میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں یہاں رکوں گا۔ حالات کا مقابلہ کروں گا۔ اور جس مقصد کے لیے آیا ہوں، اسے ضرور پورا کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آپ کی مرضی، نہانا چاہیں تو وہاں جا کر نہا لیجیے۔‘‘ چوریا نے ایک چھوٹے سے پوکھر کی طرف اشارہ کیا۔اس نے ادھر دیکھا تو اس کی نظریں شرم سے جھک گئیں۔ وہاں بہت سی عورتیں بھی نگی نہارہی تھیں۔
’’صاحب! آنکھ جھکانے سے کام نہیں چلے گا۔ یہاں رہنا ہے تو وہیں نہانا پڑے گا۔ انھیں کے ساتھ جس طرح دوسرے مردنہارہے ہیں۔ اور ہاں، اور بھی بہت کچھ دیکھنا پڑے گا۔‘‘
اس نے آہستہ آہستہ نظر میں اوپر اٹھا کر پھر سے تالاب کی جانب مبذول کر دیں۔ 
اس کے بدن میں جھر جھری سی دوڑ گئی۔ 
اس کی طرف کچھ عورتوں نے بھی دیکھا مگر ان کے چہروں پر اس قسم کا کوئی اثر نہیں تھا۔
اس کے پاؤں دھیرے دھیرے تالاب کی طرف بڑھنے لگے۔ قریب پہنچ کر دیکھا تو اس چھچھلے تالاب میں بہت سارے جانور بھی لوٹ لگارہے تھے۔
پانی کے رنگ اور بدبو کے بھپکے نے اسے پیچھے دھکیل دیامگر کچھ دیر بعد اس کے پاؤں پھر آگے بڑھ گئے اور بڑھتے چلے گئے۔
رفتہ رفتہ اس نے خود کو اس ماحول میں ڈھال لیا۔ صرف گندے پانی ہی میں نہیں بلکہ اس نے اپنے آپ کو وہاں کی گھناؤنی زندگی کی گہرائی میں بھی اتار لیا۔
کچھ ہی دنوں میں اس کے گورے رنگ پر سیاہی کی پرت چڑھ گئی۔ اس کے گال پچک گئے۔ آنکھیں اندر کوهنس گئیں۔ چہرہ دھوپ میں جل کر کالا پڑ گیا۔ ہاتھ پاؤں میں جگہ جگہ زخم کے نشان بن گئے۔
اس کا حلیہ اس حد تک بدل گیا کہ اسے خود کو پانا مشکل ہو گیا مگر اسے خوشی تھی کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہا۔ اس نے وہاں وہ سب کچھ دیکھ لیا جو دیکھنا چاہتا تھا۔
وہاں سے لوٹ کر وہ تخلیقی عمل میں مصروف ہو گیا اور ایک دن اس نے اپنے مشاہدات، تجربات اورمحسوسات کوتخلیق کے قالب میں ڈھال کر اسے چھپنے کے لیے سب سے اہم رسالے کو بھیج دیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی تخلیق شاہ کار ثابت ہوگی اور چاروں طرف دھوم مچادے گی مگر اس کی تخلیق شائع نہ ہوسکی۔ رسالے کے مدیر نے یہ دیکھ کر لوٹا دی کہ:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رچنا کافی محنت سے رچی گئی ہے۔ رچنا کارنے فنکاری بھی خوب دکھائی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ رچنا ہماری میگزین کے معیار پر پوری نہیں اتری۔ اس لیے کہ یہ آج کے زمانے کا ساتھ نہیں دیتی۔ یہ سانبرا سپیس میں فٹ نہیں ہوتی۔‘‘
مدیر کا خط پڑھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اور اس کے ذہن میں چورسیا کا ایک جملہ گونجنے لگا۔ یہاں کی آتما آپ کو دکھائی دے گی صاحب؟‘‘
٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ

مبصر: ریحان کوثر
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ’اشتراکیت‘، ’اشتمالیت‘ اور ’مساوات‘ وغیرہ محض اصطلاحات ہیں۔ یہ اصطلاحات دل کو بہلانے کے لیے چند خیالات ہیں جو انسانوں نے انسانوں کے لیے کسی جھوٹی کہانیوں کی طرح گھڑ رکھی ہیں۔ اُن پریوں کی کہانیوں کی طرح جہاں سوائے خوشیوں کے کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں چہروں پر مسکراہٹ کھیلتی ہے۔ جہاں مسرتوں کے میلے لگائے جاتے ہیں۔ جہاں ہر کسی کے سینوں میں بے پناہ سکون اور اطمینان ہوتا ہے۔ جہاں دکھ، درد اور تکلیف کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ ہزاروں برسوں کی انسانی مکاریوں نے ان تمام نظاموں کو صرف انسانوں کو بہلانے کے لیے رکھا ہے۔
زیادہ دور کی بات کیا کریں۔ بات ہندوستان کی ہی کی جائے تو ہزاروں برسوں سے ایک انسان نما جانوروں کا طبقہ پانی کی طرح ہے جو تیل میں کبھی تحلیل ہو ہی نہیں سکا۔ سنا ہے اس ملک پر راجا رام اور شری کرشن جیسے راجاؤں نے بھی حکومت کی، یہ تو بھگوان بھی تھے نا؟ پھر یہ طبقہ کیسے اور کس طرح وجود میں آیا؟ بھگوان مہاویر اور گوتم بدھ کے ماننے والوں نے یہاں عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں، پھر یہ طبقہ کیسے اور کس طرح وجود میں آیا؟ یہاں ’محسن انسانیت‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقان نے بھی تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی، عیسیٰ مسیح کے پیروکار بھی یہاں تقریباً دو سو سال قابض رہے پھر یہ طبقہ کیسے اور کس طرح وجود میں آیا؟ آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کے چیلوں نے بھی حکمرانی کی اور آج ’فہرست کے آخری آدمی‘ کی بات کرنے والے پنڈت دین دیال اپادھیائے کے ’بھکتوں‘ کو بھی حکومت کا موقع مل چکا ہے اور ان کی حکومتوں کے بارہ تیرہ برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پھر بھی اس طبقے کا وجود اس سر زمین پر باقی کیوں ہے؟ 

کہانی:
زیر نظر افسانہ اسی سائبر اسپیس، انھی انسانی مکاریوں اور سماج کے کھوکھلے پن سے پردہ اٹھاتا ہے۔ یہ ’برج موہن‘ اور ’چورسیا‘ کی کہانی ہے۔ کہانی کیا ہے حقیقت ہے حقیقت۔۔۔! ایک ایسی حقیقت جس میں مساوات اور سماج واد کی بات کرنے والا میلی دھوتی اور اجلے بنیائن میں ’سرکس کا جو کر‘ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں بات امیری اور غریبی کی نہیں بلکہ انسان اور انسان نما جانوروں کی ہے۔ وہ جانور جو صدیوں سے وقت کی چکی میں پسا جا رہا ہے۔ ایسی ہی انسان نما جانوروں کی بستی میں برج موہن اپنی شان و شوکت، آرام و آسائش کو چھوڑ کر جاتا ہے۔ وہاں چورسیا کے ذریعے اس بستی یا اس علاقے کا باریکی سے مشاہدہ کرتا ہے۔ برج موہن ان کے ساتھ رہتا ہے۔ ان کی طرح انھی کا کھانا کھاتا ہے اور ان کے ساتھ کام بھی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ گندگی، جانوروں اور ادھ ننگے عورت اور مرد سے بھرے ہوئے تالاب میں نہاتا ہے اور ظاہری و باطنی طور پر بالکل انہی کی طرح بن جاتا ہے۔ آخر میں گھر واپس پہنچ کر جب اپنے مشاہدات و تجربات کو بے انتہا محنت اور لگن سے قلم بند کرتا ہے اور اپنی اس ’رچنا‘ کو شائع کرنے کی غرض سے کسی رسالے میں بھیجتا ہے تو میلی دھوتی اور اجلے بنیائن والا سرکس کا جوکر بن جاتا ہے۔ 

سائبر اسپیس کا لفظیاتی تجزیہ:
مندرجہ بالا پیش کیا گیا افسانے کا خلاصہ کیا اس کی ’بس‘ اتنی سی کہانی ہے؟ 
کہانی میں جب برج موہن چورسیا سے اس کی خواہشات دریافت کرتا ہے تو وہ بے چارہ بنیادی ضروریات گنوانے لگتا ہے۔ اسی دوران برج موہن بے ساختہ ’بس؟‘ کہتا ہے۔ میرے جیسا قاری اس مقام پر بے ساختہ ہنس پڑتا ہے۔ ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کے ساتھ ساتھ ’بس‘ بھی ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے آپ میں مکمل جملہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن اس ’بس‘ کی ہوا اس وقت نکل جاتی ہے جب چورسیا جواباً سوال کرتا ہے۔
’’صاحب آپ نے بس کیوں کہا؟‘‘
’بس‘ لفظ کی جتنی شکلیں ہیں کمال یہ ہے کہ افسانہ نگار نے تقریباً سبھی کا استعمال کیا ہے۔ آئیں ایک ایک بس کو دیکھتے ہیں۔ 
”شتابدی اکسپریس، سو پر فاسٹ میل پسنجرٹرین، ’بس‘، بدئبیت، بے ہنگم، بدبودار دھواں چھوڑتی اور پھٹپھٹ کرتی میٹاڈور، ہچکولے کھاتی رکشا اورتنگ و پرخار راستے کا پیدل سفر طے کر کے وہ اس بستی میں داخل ہوا۔“
یہاں لفظ ’بس‘ ذرائع آمد و رفت کے لیے استعمال کیا گیا اور تقریباً دو صفحات کے لفظوں کو پہلے پیراگراف میں سمیٹ کر برج موہن کو اپنے مقام سے بستی تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یعنی اگر کوئی اناڑی ہوتا تو اس بیان کے لیے تقریباً دو صفحات خرچ کر بیٹھتا۔ 
’’ایسی رچنا جس میں یہاں کے لوگوں کا اصلی جیون سما جائے۔ یہاں کی آتما اس میں پوری طرح رچ ’بس‘ جائے۔‘‘
برج موہن چاہتا تھا کہ اس بستی میں بسنے والوں کی آتما اس کی رچنا میں رچ بس جائے۔ یہاں بس کی تیسری اور ایک اہم شکل بیان کی گئی ہے۔ رچ کے ساتھ یہاں ’بس‘ کا استعمال بس ایسے ہی نہیں کیا گیا ہے۔ افسانے کا سارا دارومدار اس لفظ پر ٹکا ہوا ہے۔ میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ ڈاکٹر، پروفیسر، صاحب اور محترم جیسے اضافی لفظوں سے دور رہ کر جو شخص صرف ایک لفظ ’غضنفر‘ سے مطمئین ہو وہ بھلا افسانے میں لفظوں کی فضول خرچی کیوں کر کرے گا۔ 
’’مطلب صاف ہے صاحب !مارتو کمزور ہی پر پڑتی ہے نا۔ چاہے بھگوان کی مار ہو چاہے شیطان کی۔ دکھ اور مصیبت میں جب ہمارا کوئی ’بس‘ نہیں چلتا تو ہم اپنا غصہ اپنی عورت پر نکالتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے صاحب ہم اپنے بھیتر کی بھڑاس کس پر نکالیں۔ ان پیڑوں پر یا اس دھرتی پر؟‘‘
افسانہ نگار نے اس جگہ بتایا ہے کہ جب اس بستی کے لوگوں پر بھگوان اور شیطان کی مار پڑتی ہے اور وہاں کے مردوں کا کسی بات پر بس نہیں چلتا تو پیڑوں اور دھرتی کی جگہ وہ اپنا غصہ اپنی عورتوں پر نکالتے ہیں۔ عورتیں کیا ہیں؟ عورتیں ہیں بس! یہاں کا بس تمام بس سے مختلف ہے۔ 
یہ دیکھیں بس کی ایک اور شکل جب برج موہن چورسیا کے ساتھ جنگل میں زخمی ہو جاتا ہے تب بھی وہ ایک مرتبہ پھر ’بس‘ کہتا ہے۔
’’صاحب ! آج بس اتنا ہی۔ باقی کل۔ اب گھر چلتے ہیں۔‘‘ 
اس افسانے کا نقطۂ عروج اگر کہیں ہے تو وہ اسی مقام پر ہے اور حقیقت یہ بھی ہے کہ افسانے کے اس حصے کا تجزیہ میرے بس میں نہیں۔ آپ ان دونوں مرکزی کرداروں کی گفتگو کا غور سے مطالعہ کریں،
’’وقت پر دو جون کی روٹی۔ صاف پانی۔ موسم سے بچانے والا کپڑا اور بچھاون والا بستر‘‘
’’بس‘‘
’’صاحب آپ نے بس‘‘ کیوں کہا؟‘‘
’’بس نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟ تم نے جوگنوائی ہیں یہ اِچھائیں تھوڑی ہی ہیں۔‘‘ 
ایک مخصوص طبقے کو میں نے اوپر بار بار انسان نما جانور کہا ہے۔ شاید اس تجزیے کے کسی نازک مزاج قاری کو یہ گراں گزرے لیکن آپ اس اقتباس کو دیکھیں اور افسانہ نگار کی مہارت کا لوہا مانیں۔
”آپ لکھیں گے کہ چندن باڑی کے لوگ ناٹے اور کالے ہوتے ہیں۔ ان کا شریر گندا ہوتا ہے۔ دانت پیلے ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں کیچڑ بھرارہتا ہے۔ ان کے گال پچکے ہوئے ہوتے ہیں اور چھاتی کی ہڈیاں باہرنکلی ہوتی ہیں۔ وہ باجرے کی روٹی، اول کا بھرتا، موٹے چاول کا بھارت اور کھساری کی دال کھاتے ہیں..... ‘‘
افسانے میں ایک گائے پر مضمون پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مضمون 
ہمیں زندگی بھر یاد رہتے ہیں کیونکہ یہ نمبروں کی لالچ میں ہمیں بچپن میں رٹایا جاتا تھا اور جس نظم کا ذکر ہے اس طرح کی کئی نظمیں ہمیں آج بھی منہ زبانی یاد ہیں۔ خیر! یہ دونوں تو ایک مثال ہے اور افسانہ نگار کا کامیاب تجربہ بھی ہے۔ لیکن ان لفظوں سے افسانہ نگار نے جو نیا مضمون بنایا ہے وہ یادگار ہے۔ اس نئے مضمون میں انھی انسان نما جانوروں کا ذکر ہے۔ 
میری اس طبقے کو انسان نما جانوروں سے تشبیہ کی ایک وجہ افسانے میں موجود ہے۔ افسانہ نگار نے ایک جگہ ایک پینٹنگ پیش کی ہے جو لفظوں سے رچی گئی ہے۔ اگر ان لفظوں کو رنگوں سے بدل دیا جائے تو جو تصویر بنے گی وہ لاکھوں میں فروخت ہوسکتی ہے۔ سائبر اسپیس میں اس طرح کی تصاویر شیشے کے چمچماتے ہوئے شو روم میں بکتی رہی ہے۔ افسانہ نگار کے ان لفظوں کو دیکھیں۔
کچھ فاصلے پرکنکریلی زمین کے اوپر ایک مریل بچہ جس کا پیٹ ڈھول کی طرح پھولا ہوا تھا۔ چھاتی کی ہڈیاں باہرنکلی ہوئی تھیں۔ بے سدھ پڑا تھا اور اس کے پاس ہی ایک خارش زدہ پلا لیٹا تھا۔ دونوں کے اوپرمکھیاں بھن بھنارہی تھیں۔ 

اپنی بات:
افسانے کی منظر نگاری نہایت سلیقے سے کی گئی ہے۔ وہ تالاب کا منظر ہو، خارش زدہ پلے کے ساتھ مریل بچے کا منظر ہو، کھٹمل اور مچھر سے جنگ والا منظر ہو، دھوتی بدلنے والا منظر ہو یا کھانے کا منظر ہو تمام ہی آنکھوں میں تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر کمال یہ کہ بار بار برج موہن اپنے آرام و آسائش کی طرف لوٹتا جاتا ہے۔
ان تمام مناظر کی آمیزش نہایت شاندار ہے۔
میں جب بھی غضنفر صاحب کو پڑھتا ہوں تو میرے ذہن میں کڑوا تیل ہی رہتا ہے۔ کڑوا تیل پہلا افسانہ تھا جسے میں نے پڑھا تھا اور انیس بیس کے ترازو پر مجھے یہ افسانہ بھی بیس ہی نظر آیا بلکہ مجھے تو یہ افسانہ کڑوا تیل کا سیکوئیل نظر آیا۔ جب بھی اردو ادب میں سماج واد اور مساوات کے علم بردار کی فہرست بنائی جائے گی تو غضنفر صاحب کا نام اس فہرست میں بہت اوپر لکھا جائے گا۔ اسی طرح جب جب اردو افسانوں کو مساوات کی خاطر کھنگالا جائے گا یہ افسانہ ہمیشہ اوپر ہی تیرتا نظر آئے گا۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments