کڑوا تیل
غضنفر
’’اس گھانی کے بعد آپ کی باری آئے گی۔تب تک انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘شاہ جی نے میرے ہاتھ سے تلہن کا تھیلالے کرکولھو کے پاس رکھ دیا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں دروازے کے پاس پڑے ایک اسٹول پربیٹھ گیا۔
کولھو کسی پائدار لکڑی کا بناتھا۔اورکمرے کے بیچوں بیچ کچے فرش میں بڑی کاری گری اور مضبوطی کے ساتھ گڑاتھا۔کولھوکی پکی ہوئی پائدارلکڑی تیل پی کر اوربھی پک گئی تھی اور کسی سیاہی آمیز سرخ پتھر کی طرح دمک رہی تھی۔
اس کا منہ اوکھلی کی طرح کھلاہواتھا۔منہ کے اندرسے اوپرکی جانب موسل کی مانندایک گول مٹول ڈنڈا نکلاہواتھا جس کے اوپری سرے سے جوئے کا ایک سِراجُڑاتھا۔جوئے کا دوسرا سِرا بیل کے کندھے سے بندھاتھا جسے بیل کھینچتاہواایک دائرے میں گھوم رہاتھا۔
بیل جس دائرے میں گھوم رہاتھا اس دائرے کا فرش دباہواتھا۔کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہوگئی تھی۔ ایسالگتاتھاجیسے وہاں کوئی بڑا ساپہیہ رکھ کر زورسے دبادیاگیاہو۔
کولھوکے منہ میں اوپرتک سرسوں کے دانے بھرے تھے۔دانوں کے بیچ موسل نما ڈنڈا مسلسل گھوم رہا تھااوراس عمل میں اس کا دباؤ چاروں طرف کے دانوں پرپڑرہاتھا۔
دانے ڈنڈے کے دباؤ سے دب کر چپٹے ہوتے جارہے تھے۔
دبے اورکچلے ہوئے دانوں کا تیل اندرہی اندرنیچے جاکرکولھوکے نچلے سِرے میں بنے ایک باریک سوراخ کے ذریعے بوندبوند ٹپک کر ایک مٹ میلے سے برتن میں جمع ہورہاتھا۔
برتن میں جمع تازہ تیل ایسالگتاتھا جیسے بیل کی پگھلی ہوئی چربی ہویا جیسے سونا پگھلاکر ڈال دیاگیاہو۔
تیل کی چمک دیکھ کر میری آنکھوں میں چمکتے ہوئے چہرے، مالش شدہ اعضا، گٹھے ہوئے جسم، کسے ہوئے پٹھے،چکنی جلدیں،دمکتی ہوئی لاٹھیاں اور زنگ سے محفوظ مشینوں کے پرزے چمچمانے لگے۔مضبوط اورچمکدارجسموں کے ساتھ صحت منددماغ اوران دماغوں کے تاب دار کارنامے بھی اس تیل میں تیرنے لگے۔
تیل کے برتن سے نگاہیں نکلیں تو کولھومیں جتے بیل کی جانب مبذول ہوگئیں۔
بیل اوپرسے نیچے اورآگے سے پیچھے تک پٹخاہواتھا،پُٹھاپچک گیاتھا۔پیٹ دونوں طرف سے دھنس گیاتھا۔پیٹھ بیٹھ گئی تھی۔گوشت سوکھ گیاتھا۔ ہڈیاں باہرنکل آئی تھیں۔قد بھنچاہوا تھا۔گردن سے لے کر پُٹھے تک پوراجسم چابک کے نشان سے اٹاپڑا تھا۔جگہ جگہ سے کھال ادھڑگئی تھی۔بال نچے ہوئے تھے۔گردن کی جلد رگڑکھاکرچھل گئی تھی۔دونوں سینگوں کی نوکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔کانو ں کے اندراورباہرجِلد خورکیڑے جِلد سے چمٹے پڑے تھے۔پچھلاحصہ پیروں تک گوبر میں سناہواتھا۔دُم بھی میل میں لپٹی پڑی تھی۔دُم کے بال بیل کے چھیرے میں لت پت ہوکرلٹ بن گئے تھے۔ پچھلے ایک پاؤں سے خون بھی رس رہاتھا۔
بیل کی آنکھوں پرپٹیاں بندھی تھیں۔ناک میں نکیل پڑی تھی۔منہ پرجاب چڑھاہوا تھا۔ بیل ایک مخصوص رفتارسے دائرے میں گھوم رہاتھا۔پاؤں رکھنے میں وہ کافی احتیاط برت رہا تھا۔ گھیرے کی دبی ہوئی زمین پراس کے پیراس طرح پڑرہے تھے جیسے ایک ایک قدم کی جگہ مقرر ہو۔نہایت ناپ تول اور سنبھل سنبھل کرپاؤں رکھنے کے باوجود کبھی کبھار وہ لڑکھڑاپڑتااور اس کی رفتار میں کمی آجاتی توشاہ جی کے ہاتھ کا سونٹا لہراکراس کی پیٹھ پرجاپڑتا اوروہ اپنی تلملاہٹ اور لڑ کھڑاہٹ دونوں پرتیزی سے قابوپاکراپنی راہ پکڑلیتا۔
سونٹا اس زور سے پڑتاکہ سڑاک کی آواز دیرتک کمرے میں گونجتی رہتی۔کبھی کبھی تو میری پیٹھ بھی سہم جاتی۔
بیل کو ایک مرکزپرلگاتارگھومتے ہوئے دیکھ کر میرے دل میں ایک عجیب سا خیال آیا اور میری نگاہ رسٹ واچ پرمرکوز ہوگئی۔
ایک چکرمیں تیس سیکنڈ151
میں نے گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے چکروں کو گننا شروع کردیا۔ ایک151دو151 تین 151چار151 پانچ151 چھ151 سات151 آٹھ151 نو 151دس151
دس چکر پانچ منٹ چارسکنڈمیں151
گویااوسطاً فی چکر151تیس سکنڈ
’’شاہ جی یہ بیل کتنے گھنٹے کولھوکھینچتاہوگا؟‘‘
’’یہی کوئی بارہ تیرہ گھنٹے؟’’کیوں؟‘‘
’’یوں ہی پوچھ لیا۔’’مختصر سا جواب دے کرمیں بارہ گھنٹوں میں پورے کیے گئے چکروں کا حساب لگانے لگا۔
پانچ منٹ میں دس چکرتوایک گھنٹے میں؟
ایک گھنٹے میں ایک سوبیس چکر
اوربارہ گھنٹے میں؟
ایک سوبیس ضرب بارہ برابرچودہ سوچالیس چکر151
اچانک میری نگاہیں اس گھیرے کو گھورنے لگیں جس میں بیل گھوم رہاتھا۔
دس،دس،بیس،دس، تیس،دس چالیس151میرے آگے دائرے کی لمبائی کھنچ گئی۔
بیل ایک چکرمیں تقریباً چالیس فٹ کی دُوری طے کرتاہے۔
چالیس ضرب چودہ سوچالیں برابر ستاون ہزارچھے سوفٹ 151
ستاون ہزارچھ سوفٹ مطلب سواسترہ کلومیٹر
گویاایک دن میں سواسترہ کلومیٹرکی دُوری
اگر بیل کمرے سے باہر نکلے توروزانہ151
کمرہ پھیل کر میدان میں تبدیل ہوگیا۔دُوردُورتک پھیلے ہوئے میدان میں کھلی فضائیں جلوہ دکھانے لگیں۔سورج کی شعاعیں چمچانے لگیں۔ تمام سمتیں نظرآنے لگیں۔ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں151151چاروں طرف سبزہ زاراگ آئے۔کھیت ہرے ہوگئے۔سبزے لہلہانے لگے۔ پودے لہرانے لگے۔شاخیں ہلنے لگیں۔سبزہ زاروں کے بیچ پانی کے سوتے ندی،نالے، تالاب اور چشمے جھلملانے لگے۔
یکایک بیل کے کندھے سے جُوااترگیا۔اس کی آنکھو ں سے پٹیاں کھل گئیں۔منہ سے جاب ہٹ گیا۔بیل کھلی اور روشن فضامیں ہری بھری دھرتی کے اوپربے فکری اورآزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے لگا۔سبزوں کودیکھ کراس کی آنکھوں میں ہریالی بھرگئی۔اس کا چہرہ چمک اُٹھا۔وہ مختلف سمتوں میں بے روک ٹوک گھومتا، من پسند سبز،تازہ،نرم ملائم پودوں،پتوں اورمخملی گھاس کو چرتا، چباتا، جگالی کرتا،ندی،نالوں اور چشموں سے پانی پیتا،تمام سمتوں کی جانب دیکھتا،میدان کی وسعتوں کو آنکھوں میں بھرتاجھومتا ہواکافی دُورنکل گیا۔
سڑاک
سونٹے کی چوٹ پرذہن جھنجھنااُٹھا۔پھیلی ہوئی سرسبزدھرتی میری آنکھوں سے نکل گئی۔
بیل کولھو کھینچنے لگا۔اس کی آنکھو ں کی پٹیاں لہرانے لگیں۔
لہراتی ہوئی پٹیاں میری آنکھوں پربندھ گئیں۔
بیل کے کندھے پربندھاجوا،اس کی ناک میں پڑی نکیل،گھومتاہواکولھو،کچلتے ہوئے سرسوں کے دانے،دانوں سے بناکھل، برتن میں جمع تیل، تیل کے پاس کھڑاشاہ جی سب کچھ میری آنکھوں سے چھپ گیا۔سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
اندھیرامیرے اندرتک گھلتاچلاگیا۔
مجھے ہول اُٹھنے لگا۔میرادم گھٹنے لگا۔بے چین ہوکرمیں نے اپنی آنکھوں سے پٹیاں جھٹک دیں۔
’’شاہ جی!ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’پوچھیے۔‘‘
’’بیل کی آنکھوں پرپٹی کیوں بندھی ہوئی ہے؟‘‘
’’اس لیے کہ کھلی آنکھوں سے ایک جگہ پرلگاتار گھومتے رہنے سے اُسے چکّر آسکتا ہے اور151151151‘‘
یک لخت میں اپنے بچپن میں پہنچ گیا۔جہاں ہم کبھی کھلی اورکبھی بند آنکھو ں سے کھلیان کے وسط میں گڑے کھمبے کے چاروں طرف چکرلگانے کا کھیل کھیلاکرتے تھے۔اورکھلی آنکھوں سے گھومتے وقت اکثرچکرکھاکرگرپڑتے تھے۔
شاہ جی ویسانہیں ہے جیسا کہ میرے ذہن نے اس کی تصویربنالی ہے۔شاہ جی کوکم سے کم بیل کی تکلیف کا احساس ضرور ہے۔تصویرقدرے صاف ہوگئی۔
’’اوراسے چکر آنے کا مطلب ہے میرا گھن چکر‘‘
’’مطلب؟‘‘ دوسرا جملہ سن کر میں چونک پڑا۔
’’مطلب یہ کہ میں گھن چکّر میں پڑجاؤں گا۔یہ باربارچکّر کھاکرگرے گا توکام کم ہوگا اور کم کام ہوگاتو ہمارانقصان ہوگا۔‘‘
شاہ جی کی تصویرسے جوسیاہ پرت اتری تھی،،دوبارہ چڑھ گئی۔
مجھے ان کے گھن چکرمیں کچھ اوربھی چکر محسوس ہونے لگا۔کئی او رباتیں میرے دماغ میں چکرکاٹنے لگیں۔
کولھو کے منہ میں پڑے سرسوں کے دانے میرے قریب آگئے۔
آنکھوں پرپٹی باندھنے کی وجہ یہ بھی توہوسکتی ہے کہ کہیں بیل ان دانوں میں منہ نہ مار لے اورشاہ جی کواپنے پاس سے ہرجانے بھرنا پڑجائے۔
کولھو کا دائرہ بھی میرے نزدیک سرک آیا۔
یہ بھی توہوسکتاہے کہ کہیں بیل کو یہ احساس نہ ہوجائے کہ وہ برسوں سے ایک ہی جگہ پر صبح سے شام تک گھومتارہتاہے اورا س احساس کے ساتھ ہی وہ بغاوت پر اُترآئے، جوا توڑ کر بھاگ نکلے۔
اوریہ بھی کہ اسے کھل اور تیل نہ دکھ جائے۔
سرسوں کے زیادہ تر دانے کچل کر کھل میں تبدیل ہوچکے تھے۔برتن میں کافی ساراتیل جمع ہوگیاتھا۔
بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔
’’شاہ جی!یہ کھل تواسے ہی کھلاتے ہوں گے؟‘‘
’’نہیں اسے کیوں کھلائیں گے یہ کوئی گاڑی تھوڑے کھینچتا ہے۔کھل تواسے دیتے ہیں جو گاڑی کھینچتا ہے۔ یاہل جوتتا ہے۔‘‘
میری نظرایک بارپھربیل کے اوپرمرکوز ہوگئی۔
دھنسی ہوئی کوکھ۔پچکاہواپٹھا،دبی ہوئی پیٹھ اوراُبھری ہوئی ہڈیاں میری آنکھوں میں چبھنے لگیں۔
’’شاہ جی!یہ بیل توکافی کمزوراور بوڑھادکھتاہے۔اسے رٹائرڈکیوں نہیں کردیتے۔‘‘
’’نہیں بابو صاحب! اس کی بوُڑھی ہڈیوں میں بہت جان ہے۔ ابھی تویہ برسوں کھینچ سکتا ہے۔پھریہ سدھاہواہے۔اپنے کام سے اچھّی طرح واقف ہے۔ اس کی جگہ جوان بیل جوتنے میں کافی دقّت ہوگی۔جوان بیل کھینچے گا کم بدکے گازیادہ۔اس لیے فی الحال یہی ٹھیک ہے۔‘‘
میری نگاہیں بیل کی رفتارکی طرف مبذول ہوگئیں۔
بوڑھا بیل واقعی سدھا ہواتھا۔ایک متوازن رفتارسے کولھو کھینچ رہا تھا۔اس کے پاؤں نپے تلے پڑرہے تھے۔قدم گھیرے سے باہر شاید ہی کبھی نکلتا تھا۔ لگتا تھا اس کی بندآنکھیں شاہ جی کے سونٹے کو دیکھ رہی تھیں۔
’’ویسے ایک بچھڑے کوتیارکررہاہوں۔کبھی کبھی اسے جوتتاہوں۔ مگر پَٹھا ابھی، پُٹھے پر ہاتھ رکھنے نہیں دیتا۔کندھے پرجوارکھتے وقت بڑا اُدھم مچاتا ہے۔آنکھ پرآسانی سے پٹی بھی باندھنے نہیں دیتا۔سرجھٹکتاہے مگردھیرے دھیرے قابومیں آہی جائے گا۔‘‘
میری آنکھوں میں بچھڑاآکرکھڑاہوگیا۔
لمباچوڑا ڈیل ڈول،بھرا بھراچھریرابدن،اُٹھاہواپُٹھا،اونچا قد،تنی ہوئی چکنی
کھال، چمکتے ہوئے صاف ستھرے بال،پھرتیلے پاؤں۔
بچھڑے کا کساہوا پرکشش جسم مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ میری نگاہیں اس کے ایک ایک انگ پرٹھہرنے لگیں۔ اچانک بچھڑے کا ڈیل ڈول بگڑگیا۔قددب گیا۔پیٹ دھنس گیا۔پُٹھا پچک گیا۔ پیٹھ بیٹھ گئی۔ہڈیاں نکل آئیں۔کھال داغ دارہوگئی۔پیروں کی چمڑی چھل گئی۔ بالوں کی چمک کھوگئی۔بدن گوبرمیں سن گیا۔
میرے جی میں آیاکہ میں کمرے سے باہرجاؤں اوربچھڑے کی رسی کھول دوں۔یہ بھی جی میںآیاکہ اورنہیں تو آگے بڑھ کربیل کی آنکھوں کی پٹی ہی نوچ دوں مگر میں اپنی گھانی کا تیل نکلنے کے انتظارمیں اپنی جگہ پرچپ چاپ بیٹھاکبھی بیل،کبھی کولھو کے سوراخ سے نکلتے ہوئے تیل کو دیکھتا رہا۔
اوربیچ بیچ میں سڑاک سڑاک کی گونج سنتارہا۔
(افسانوی مجموعہ حیرت فروش ازغضنفر، ص 15)
٭٭٭
تبصرہ و تجزیہ
غضنفر
’’اس گھانی کے بعد آپ کی باری آئے گی۔تب تک انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘شاہ جی نے میرے ہاتھ سے تلہن کا تھیلالے کرکولھو کے پاس رکھ دیا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں دروازے کے پاس پڑے ایک اسٹول پربیٹھ گیا۔
کولھو کسی پائدار لکڑی کا بناتھا۔اورکمرے کے بیچوں بیچ کچے فرش میں بڑی کاری گری اور مضبوطی کے ساتھ گڑاتھا۔کولھوکی پکی ہوئی پائدارلکڑی تیل پی کر اوربھی پک گئی تھی اور کسی سیاہی آمیز سرخ پتھر کی طرح دمک رہی تھی۔
اس کا منہ اوکھلی کی طرح کھلاہواتھا۔منہ کے اندرسے اوپرکی جانب موسل کی مانندایک گول مٹول ڈنڈا نکلاہواتھا جس کے اوپری سرے سے جوئے کا ایک سِراجُڑاتھا۔جوئے کا دوسرا سِرا بیل کے کندھے سے بندھاتھا جسے بیل کھینچتاہواایک دائرے میں گھوم رہاتھا۔
بیل جس دائرے میں گھوم رہاتھا اس دائرے کا فرش دباہواتھا۔کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہوگئی تھی۔ ایسالگتاتھاجیسے وہاں کوئی بڑا ساپہیہ رکھ کر زورسے دبادیاگیاہو۔
کولھوکے منہ میں اوپرتک سرسوں کے دانے بھرے تھے۔دانوں کے بیچ موسل نما ڈنڈا مسلسل گھوم رہا تھااوراس عمل میں اس کا دباؤ چاروں طرف کے دانوں پرپڑرہاتھا۔
دانے ڈنڈے کے دباؤ سے دب کر چپٹے ہوتے جارہے تھے۔
دبے اورکچلے ہوئے دانوں کا تیل اندرہی اندرنیچے جاکرکولھوکے نچلے سِرے میں بنے ایک باریک سوراخ کے ذریعے بوندبوند ٹپک کر ایک مٹ میلے سے برتن میں جمع ہورہاتھا۔
برتن میں جمع تازہ تیل ایسالگتاتھا جیسے بیل کی پگھلی ہوئی چربی ہویا جیسے سونا پگھلاکر ڈال دیاگیاہو۔
تیل کی چمک دیکھ کر میری آنکھوں میں چمکتے ہوئے چہرے، مالش شدہ اعضا، گٹھے ہوئے جسم، کسے ہوئے پٹھے،چکنی جلدیں،دمکتی ہوئی لاٹھیاں اور زنگ سے محفوظ مشینوں کے پرزے چمچمانے لگے۔مضبوط اورچمکدارجسموں کے ساتھ صحت منددماغ اوران دماغوں کے تاب دار کارنامے بھی اس تیل میں تیرنے لگے۔
تیل کے برتن سے نگاہیں نکلیں تو کولھومیں جتے بیل کی جانب مبذول ہوگئیں۔
بیل اوپرسے نیچے اورآگے سے پیچھے تک پٹخاہواتھا،پُٹھاپچک گیاتھا۔پیٹ دونوں طرف سے دھنس گیاتھا۔پیٹھ بیٹھ گئی تھی۔گوشت سوکھ گیاتھا۔ ہڈیاں باہرنکل آئی تھیں۔قد بھنچاہوا تھا۔گردن سے لے کر پُٹھے تک پوراجسم چابک کے نشان سے اٹاپڑا تھا۔جگہ جگہ سے کھال ادھڑگئی تھی۔بال نچے ہوئے تھے۔گردن کی جلد رگڑکھاکرچھل گئی تھی۔دونوں سینگوں کی نوکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔کانو ں کے اندراورباہرجِلد خورکیڑے جِلد سے چمٹے پڑے تھے۔پچھلاحصہ پیروں تک گوبر میں سناہواتھا۔دُم بھی میل میں لپٹی پڑی تھی۔دُم کے بال بیل کے چھیرے میں لت پت ہوکرلٹ بن گئے تھے۔ پچھلے ایک پاؤں سے خون بھی رس رہاتھا۔
بیل کی آنکھوں پرپٹیاں بندھی تھیں۔ناک میں نکیل پڑی تھی۔منہ پرجاب چڑھاہوا تھا۔ بیل ایک مخصوص رفتارسے دائرے میں گھوم رہاتھا۔پاؤں رکھنے میں وہ کافی احتیاط برت رہا تھا۔ گھیرے کی دبی ہوئی زمین پراس کے پیراس طرح پڑرہے تھے جیسے ایک ایک قدم کی جگہ مقرر ہو۔نہایت ناپ تول اور سنبھل سنبھل کرپاؤں رکھنے کے باوجود کبھی کبھار وہ لڑکھڑاپڑتااور اس کی رفتار میں کمی آجاتی توشاہ جی کے ہاتھ کا سونٹا لہراکراس کی پیٹھ پرجاپڑتا اوروہ اپنی تلملاہٹ اور لڑ کھڑاہٹ دونوں پرتیزی سے قابوپاکراپنی راہ پکڑلیتا۔
سونٹا اس زور سے پڑتاکہ سڑاک کی آواز دیرتک کمرے میں گونجتی رہتی۔کبھی کبھی تو میری پیٹھ بھی سہم جاتی۔
بیل کو ایک مرکزپرلگاتارگھومتے ہوئے دیکھ کر میرے دل میں ایک عجیب سا خیال آیا اور میری نگاہ رسٹ واچ پرمرکوز ہوگئی۔
ایک چکرمیں تیس سیکنڈ151
میں نے گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے چکروں کو گننا شروع کردیا۔ ایک151دو151 تین 151چار151 پانچ151 چھ151 سات151 آٹھ151 نو 151دس151
دس چکر پانچ منٹ چارسکنڈمیں151
گویااوسطاً فی چکر151تیس سکنڈ
’’شاہ جی یہ بیل کتنے گھنٹے کولھوکھینچتاہوگا؟‘‘
’’یہی کوئی بارہ تیرہ گھنٹے؟’’کیوں؟‘‘
’’یوں ہی پوچھ لیا۔’’مختصر سا جواب دے کرمیں بارہ گھنٹوں میں پورے کیے گئے چکروں کا حساب لگانے لگا۔
پانچ منٹ میں دس چکرتوایک گھنٹے میں؟
ایک گھنٹے میں ایک سوبیس چکر
اوربارہ گھنٹے میں؟
ایک سوبیس ضرب بارہ برابرچودہ سوچالیس چکر151
اچانک میری نگاہیں اس گھیرے کو گھورنے لگیں جس میں بیل گھوم رہاتھا۔
دس،دس،بیس،دس، تیس،دس چالیس151میرے آگے دائرے کی لمبائی کھنچ گئی۔
بیل ایک چکرمیں تقریباً چالیس فٹ کی دُوری طے کرتاہے۔
چالیس ضرب چودہ سوچالیں برابر ستاون ہزارچھے سوفٹ 151
ستاون ہزارچھ سوفٹ مطلب سواسترہ کلومیٹر
گویاایک دن میں سواسترہ کلومیٹرکی دُوری
اگر بیل کمرے سے باہر نکلے توروزانہ151
کمرہ پھیل کر میدان میں تبدیل ہوگیا۔دُوردُورتک پھیلے ہوئے میدان میں کھلی فضائیں جلوہ دکھانے لگیں۔سورج کی شعاعیں چمچانے لگیں۔ تمام سمتیں نظرآنے لگیں۔ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں151151چاروں طرف سبزہ زاراگ آئے۔کھیت ہرے ہوگئے۔سبزے لہلہانے لگے۔ پودے لہرانے لگے۔شاخیں ہلنے لگیں۔سبزہ زاروں کے بیچ پانی کے سوتے ندی،نالے، تالاب اور چشمے جھلملانے لگے۔
یکایک بیل کے کندھے سے جُوااترگیا۔اس کی آنکھو ں سے پٹیاں کھل گئیں۔منہ سے جاب ہٹ گیا۔بیل کھلی اور روشن فضامیں ہری بھری دھرتی کے اوپربے فکری اورآزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے لگا۔سبزوں کودیکھ کراس کی آنکھوں میں ہریالی بھرگئی۔اس کا چہرہ چمک اُٹھا۔وہ مختلف سمتوں میں بے روک ٹوک گھومتا، من پسند سبز،تازہ،نرم ملائم پودوں،پتوں اورمخملی گھاس کو چرتا، چباتا، جگالی کرتا،ندی،نالوں اور چشموں سے پانی پیتا،تمام سمتوں کی جانب دیکھتا،میدان کی وسعتوں کو آنکھوں میں بھرتاجھومتا ہواکافی دُورنکل گیا۔
سڑاک
سونٹے کی چوٹ پرذہن جھنجھنااُٹھا۔پھیلی ہوئی سرسبزدھرتی میری آنکھوں سے نکل گئی۔
بیل کولھو کھینچنے لگا۔اس کی آنکھو ں کی پٹیاں لہرانے لگیں۔
لہراتی ہوئی پٹیاں میری آنکھوں پربندھ گئیں۔
بیل کے کندھے پربندھاجوا،اس کی ناک میں پڑی نکیل،گھومتاہواکولھو،کچلتے ہوئے سرسوں کے دانے،دانوں سے بناکھل، برتن میں جمع تیل، تیل کے پاس کھڑاشاہ جی سب کچھ میری آنکھوں سے چھپ گیا۔سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
اندھیرامیرے اندرتک گھلتاچلاگیا۔
مجھے ہول اُٹھنے لگا۔میرادم گھٹنے لگا۔بے چین ہوکرمیں نے اپنی آنکھوں سے پٹیاں جھٹک دیں۔
’’شاہ جی!ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’پوچھیے۔‘‘
’’بیل کی آنکھوں پرپٹی کیوں بندھی ہوئی ہے؟‘‘
’’اس لیے کہ کھلی آنکھوں سے ایک جگہ پرلگاتار گھومتے رہنے سے اُسے چکّر آسکتا ہے اور151151151‘‘
یک لخت میں اپنے بچپن میں پہنچ گیا۔جہاں ہم کبھی کھلی اورکبھی بند آنکھو ں سے کھلیان کے وسط میں گڑے کھمبے کے چاروں طرف چکرلگانے کا کھیل کھیلاکرتے تھے۔اورکھلی آنکھوں سے گھومتے وقت اکثرچکرکھاکرگرپڑتے تھے۔
شاہ جی ویسانہیں ہے جیسا کہ میرے ذہن نے اس کی تصویربنالی ہے۔شاہ جی کوکم سے کم بیل کی تکلیف کا احساس ضرور ہے۔تصویرقدرے صاف ہوگئی۔
’’اوراسے چکر آنے کا مطلب ہے میرا گھن چکر‘‘
’’مطلب؟‘‘ دوسرا جملہ سن کر میں چونک پڑا۔
’’مطلب یہ کہ میں گھن چکّر میں پڑجاؤں گا۔یہ باربارچکّر کھاکرگرے گا توکام کم ہوگا اور کم کام ہوگاتو ہمارانقصان ہوگا۔‘‘
شاہ جی کی تصویرسے جوسیاہ پرت اتری تھی،،دوبارہ چڑھ گئی۔
مجھے ان کے گھن چکرمیں کچھ اوربھی چکر محسوس ہونے لگا۔کئی او رباتیں میرے دماغ میں چکرکاٹنے لگیں۔
کولھو کے منہ میں پڑے سرسوں کے دانے میرے قریب آگئے۔
آنکھوں پرپٹی باندھنے کی وجہ یہ بھی توہوسکتی ہے کہ کہیں بیل ان دانوں میں منہ نہ مار لے اورشاہ جی کواپنے پاس سے ہرجانے بھرنا پڑجائے۔
کولھو کا دائرہ بھی میرے نزدیک سرک آیا۔
یہ بھی توہوسکتاہے کہ کہیں بیل کو یہ احساس نہ ہوجائے کہ وہ برسوں سے ایک ہی جگہ پر صبح سے شام تک گھومتارہتاہے اورا س احساس کے ساتھ ہی وہ بغاوت پر اُترآئے، جوا توڑ کر بھاگ نکلے۔
اوریہ بھی کہ اسے کھل اور تیل نہ دکھ جائے۔
سرسوں کے زیادہ تر دانے کچل کر کھل میں تبدیل ہوچکے تھے۔برتن میں کافی ساراتیل جمع ہوگیاتھا۔
بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔
’’شاہ جی!یہ کھل تواسے ہی کھلاتے ہوں گے؟‘‘
’’نہیں اسے کیوں کھلائیں گے یہ کوئی گاڑی تھوڑے کھینچتا ہے۔کھل تواسے دیتے ہیں جو گاڑی کھینچتا ہے۔ یاہل جوتتا ہے۔‘‘
میری نظرایک بارپھربیل کے اوپرمرکوز ہوگئی۔
دھنسی ہوئی کوکھ۔پچکاہواپٹھا،دبی ہوئی پیٹھ اوراُبھری ہوئی ہڈیاں میری آنکھوں میں چبھنے لگیں۔
’’شاہ جی!یہ بیل توکافی کمزوراور بوڑھادکھتاہے۔اسے رٹائرڈکیوں نہیں کردیتے۔‘‘
’’نہیں بابو صاحب! اس کی بوُڑھی ہڈیوں میں بہت جان ہے۔ ابھی تویہ برسوں کھینچ سکتا ہے۔پھریہ سدھاہواہے۔اپنے کام سے اچھّی طرح واقف ہے۔ اس کی جگہ جوان بیل جوتنے میں کافی دقّت ہوگی۔جوان بیل کھینچے گا کم بدکے گازیادہ۔اس لیے فی الحال یہی ٹھیک ہے۔‘‘
میری نگاہیں بیل کی رفتارکی طرف مبذول ہوگئیں۔
بوڑھا بیل واقعی سدھا ہواتھا۔ایک متوازن رفتارسے کولھو کھینچ رہا تھا۔اس کے پاؤں نپے تلے پڑرہے تھے۔قدم گھیرے سے باہر شاید ہی کبھی نکلتا تھا۔ لگتا تھا اس کی بندآنکھیں شاہ جی کے سونٹے کو دیکھ رہی تھیں۔
’’ویسے ایک بچھڑے کوتیارکررہاہوں۔کبھی کبھی اسے جوتتاہوں۔ مگر پَٹھا ابھی، پُٹھے پر ہاتھ رکھنے نہیں دیتا۔کندھے پرجوارکھتے وقت بڑا اُدھم مچاتا ہے۔آنکھ پرآسانی سے پٹی بھی باندھنے نہیں دیتا۔سرجھٹکتاہے مگردھیرے دھیرے قابومیں آہی جائے گا۔‘‘
میری آنکھوں میں بچھڑاآکرکھڑاہوگیا۔
لمباچوڑا ڈیل ڈول،بھرا بھراچھریرابدن،اُٹھاہواپُٹھا،اونچا قد،تنی ہوئی چکنی
کھال، چمکتے ہوئے صاف ستھرے بال،پھرتیلے پاؤں۔
بچھڑے کا کساہوا پرکشش جسم مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ میری نگاہیں اس کے ایک ایک انگ پرٹھہرنے لگیں۔ اچانک بچھڑے کا ڈیل ڈول بگڑگیا۔قددب گیا۔پیٹ دھنس گیا۔پُٹھا پچک گیا۔ پیٹھ بیٹھ گئی۔ہڈیاں نکل آئیں۔کھال داغ دارہوگئی۔پیروں کی چمڑی چھل گئی۔ بالوں کی چمک کھوگئی۔بدن گوبرمیں سن گیا۔
میرے جی میں آیاکہ میں کمرے سے باہرجاؤں اوربچھڑے کی رسی کھول دوں۔یہ بھی جی میںآیاکہ اورنہیں تو آگے بڑھ کربیل کی آنکھوں کی پٹی ہی نوچ دوں مگر میں اپنی گھانی کا تیل نکلنے کے انتظارمیں اپنی جگہ پرچپ چاپ بیٹھاکبھی بیل،کبھی کولھو کے سوراخ سے نکلتے ہوئے تیل کو دیکھتا رہا۔
اوربیچ بیچ میں سڑاک سڑاک کی گونج سنتارہا۔
(افسانوی مجموعہ حیرت فروش ازغضنفر، ص 15)
٭٭٭
تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر:
غضنفر صاحب کا افسانہ کڑوا تیل پڑھنے کے لیے جب میں نے پی ڈی ایف فائیل ڈاؤن لوڈ کرنی شروع کی تو دیکھا کہ یہ صرف آدھے ایم بی اور چار صفحات پر مشتمل فائیل ہے۔ افسانہ پڑھنے پڑھتے دنیا بھر کے درد، تکلیف، مختلف احساس و ادراک، سونٹوں کی مار، آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی، گوبر میں سنا ہوا بوڑھا بیل اور دائرہ نما دبی ہوئی فرش سے کزرتا ہوا آخری صفحہ پر پہنچا تو آخری صفحہ پر خاتمے کے نشانات دیکھنے کے باوجود کچھ دیر اسکرین کو اوپر ہی اوپر اسکرول کرتا رہا پھر دیکھا افسانہ تو ختم ہو گیا ہے اور پڑھنے کی پیاس ابھی باقی ہے۔ اب یہ پانی تو نہیں کہ پیاس بجھا سکے یہ تو تیل ہے وہ بھی بوڑھے بیل کی بوڑھی چربی کا نکلا ہوا تیل۔ کڑوا تیل۔ اْف یہ تیل ہے تپی ہوئی چربی ہے یا جلا ہوا بوڑھے بیل کا خون ہے۔
یہ سارے منظر دیکھنے کے بعد کوئی پتھر دل ہی ہوگا جسے بچھڑے کو آزاد کرنے کا خیال نہ آئے۔ افسانے میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سلیقے اور قرینے سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر، پروفیسر، صاحب اور محترم جیسے لفظوں سے دور رہ کر جو شخص ایک لفظ غضنفر سے مطمئین ہوں وہ بھلا افسانے میں لفظوں کی فضول خرچی کیوں کر کرے گا۔ بیشک منتخب لفظوں کی اینٹوں سے افسانے کی مظبوط دیوار اٹھائی گئی ہے۔ شہروز خاور صاحب سے بالکل متفق ہوں کہ یہ ایک بھرپور افسانہ ہے۔
مجھ جیسے طالب علموں کے لیے شاہ جی کے گھانے میں غضنفر صاحب نے ایک اہم اور ضروری ورکشاپ آرگنائز کی ہے۔ عمدہ افسانے کے لیے غضنفر صاحب کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔ اللہ انھیں سلامت رکھے۔ آمین۔
غضنفر صاحب کا افسانہ کڑوا تیل پڑھنے کے لیے جب میں نے پی ڈی ایف فائیل ڈاؤن لوڈ کرنی شروع کی تو دیکھا کہ یہ صرف آدھے ایم بی اور چار صفحات پر مشتمل فائیل ہے۔ افسانہ پڑھنے پڑھتے دنیا بھر کے درد، تکلیف، مختلف احساس و ادراک، سونٹوں کی مار، آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی، گوبر میں سنا ہوا بوڑھا بیل اور دائرہ نما دبی ہوئی فرش سے کزرتا ہوا آخری صفحہ پر پہنچا تو آخری صفحہ پر خاتمے کے نشانات دیکھنے کے باوجود کچھ دیر اسکرین کو اوپر ہی اوپر اسکرول کرتا رہا پھر دیکھا افسانہ تو ختم ہو گیا ہے اور پڑھنے کی پیاس ابھی باقی ہے۔ اب یہ پانی تو نہیں کہ پیاس بجھا سکے یہ تو تیل ہے وہ بھی بوڑھے بیل کی بوڑھی چربی کا نکلا ہوا تیل۔ کڑوا تیل۔ اْف یہ تیل ہے تپی ہوئی چربی ہے یا جلا ہوا بوڑھے بیل کا خون ہے۔
یہ سارے منظر دیکھنے کے بعد کوئی پتھر دل ہی ہوگا جسے بچھڑے کو آزاد کرنے کا خیال نہ آئے۔ افسانے میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سلیقے اور قرینے سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر، پروفیسر، صاحب اور محترم جیسے لفظوں سے دور رہ کر جو شخص ایک لفظ غضنفر سے مطمئین ہوں وہ بھلا افسانے میں لفظوں کی فضول خرچی کیوں کر کرے گا۔ بیشک منتخب لفظوں کی اینٹوں سے افسانے کی مظبوط دیوار اٹھائی گئی ہے۔ شہروز خاور صاحب سے بالکل متفق ہوں کہ یہ ایک بھرپور افسانہ ہے۔
مجھ جیسے طالب علموں کے لیے شاہ جی کے گھانے میں غضنفر صاحب نے ایک اہم اور ضروری ورکشاپ آرگنائز کی ہے۔ عمدہ افسانے کے لیے غضنفر صاحب کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔ اللہ انھیں سلامت رکھے۔ آمین۔
0 Comments