Ticker

6/recent/ticker-posts

ہدو کا ہاتھی (ذکیہ مشہدی)

ہدو کا ہاتھی

ذکیہ مشہدی

تعارف:
عصمت چغتائی اور قرۃالعین حیدر کے بعد جن چند عہد ساز خواتین افسانہ نگاروں کا نام ادب میں خصوصیت سے لیا جاتا ہے ان میں ذکیہ مشہدی کی حیثیت اپنے اسلوب، موضوعاتی تنوع اور فکری جہات کے بل بوتے پر قدر نمایاں ہے۔ موصوفہ کے کل 6 افسانوی مجموعے 'پرائے چہرے'،' تاریک راہوں کے مسافر '، 'صدائے بازگشت'، 'نقشِ نا تمام'، 'یہ جہانِ رنگ و بو 'اور آنکھن دیکھی ' زیور طباعت سے آراستہ ہو کر ادبی گلیاروں میں بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ نیز ایک ناولٹ' پارسا بی بی کا بگھار' بھی موصوفہ نے تخلیق کیا۔ ہر چند کہ آپ کے اکثر افسانوں کے ترجمے مختلف اہم زبانوں میں ہوئے تاہم آپ خود بھی ترجمہ نگاری سے خاص شغف رکھتی ہیں۔ تقریباً 18 علمی و ادبی کتابوں کا اردو، ہندی اور انگریزی میں معکوس ترجمہ کر چکی ہیں، جن میں ناولوں کے ترجمے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ خاص طور پر جیلانی بانو کا مشہور ناول ’’ایوان غزل‘‘ کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ ان کا اہم کارنامہ ہے۔ علاوہ ازیں تعلیم بالغاں کے لیے لکھی گئیں آپ کی دو درجن سے زائد کتابیں بھی لائق ستائش و مبارک باد ہیں۔ متعدد معروف ناقدین نے موصوفہ کی افسانہ نگاری کو موضوع بنایا، آپ کے فکر و فن پر کئی پی ایچ ڈی، مقالے اور دیگر نوعیت کے اکیڈمک تحقیقی کام پایہ تکمیل کو پہنچے۔ علاوہ ازیں رسالہ 'ماہ نامہ چہار سو' کا ذکیہ مشہدی کا نمبر بھی اہم ہے۔ صنف افسانہ اور اس سے وابستہ سنجیدہ قلم کاروں کے لیے ذکیہ مشہدی کا قول مشہور ہے کہ "افسانہ نگار ہونے کے لیے صرف تین چیزیں ضروری ہیں۔ ایک حساس دل، زبان پر دسترس اور گرد و پیش سے آگاہی۔ "
انعام و اعزاز:
  • بہار اردو اکیڈمی سے تقریباً 4 افسانوی مجموعوں پر انعام بہار (اس کے علاوہ اور بھی )
  • بہار سرکار سے مجموعی خدمات کے لیے انعام
  • غالب ایوارڈ
  • شمیم نکہت ایوارڈ
  • ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ براے ترجمہ
  • صوفی جمیل اختر سوسائٹی ایوارڑ
  • مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں یوپی اردو اکیڈمی ایوارڈ
  • دیہی علاقوں کے نو خواندہ افراد کے لیے کتابیں تیار کرنے کے لیے بہار سرکار سے دو بار ایوارڈ
  • گاندھی جی پر کتابچہ تیار کرنے کے لیے مرکزی سرکار سے ایوارڈ
  • محمد عمر میمن کا انگریزی میں کیا گیا "جانکی رمن پانڈے کا" ترجمہ اور جسے عمر میمن نے Greatest Urdu Stories Ever Told میں شامل کیا ذکیہ مشہدی کے مطابق وہ ان کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔
زیر نظر افسانہ' ہدو کا ہاتھی' ان کے افسانوی مجموعے ' نقش نا تمام ' سے ماخوذ ہے۔
سید اسماعیل گوہر
٭٭٭

ہدّوُ نے پیپل کے پتوں کے بڑے بڑے جھنکاڑرکشےسے اتارے، کثیف کرتے کی جیب سے چند مڑے تڑے نوٹ اور کچھ ‌ریزگاری بر آمد کی، احتیاط سے گن کررکشے والے کا کرایہ ادا کیا، بقیہ رقم واپس رکھی، پھر بڑی محنت سے موٹی موٹی ڈالیاں کھینچ کر انہیں احاطے کے اندر لائے۔
ہاتھی نے کسل مندی سے سونڈدائیں‌بائیں جھلائی، پھر قدرے تکلف کے سا تھ بھاری بھر کم پاؤ‌ں آگے بڑھائے۔
’’ ارے بیٹا رک‘ اس سے قبل کہ لوگ تیرا حصہ کھا جائیں یہ لے لے۔‘‘ ہدّ‌و نےبڑی محبت سے ہاتھی کو مخاطب کیا اور کندھے پر لٹکےانگوچھے کے سرے پر بندھی پوٹلی کھولی‌۔پوٹلی میں چار‌عدد دوستی روٹیاں اور کوئی پانچ سات حلوے کی قتلیاں‌۔ ان میں صرف ایک چنے کی تھی اور باقی سو جی یا میدے کی‌۔
ہاتھی نے قریب آ کر اپنا بھاڑ سامو نہہ کھول د یا۔ ہدّو نے چاروں رو ٹیاں اور حلوہ، ایک سا تھ لپیٹ‌کر اس میں ڈالے تو اونٹ کے منہ میں زیرے والے محاورے میں ذرا سی ترمیم کر دینے کو جی چاہا۔ہاتھی نے پھر بھی تاڑکےپتوں جیسے بڑے بڑے کان‌جھلے اور املی کے چیوں جیسی ننھی ننھی آنکھوں سے ہدّ و کو انتہائی ممنونیت اور محبت کے ملے جلے جذبات کے سا تھ دیکھا۔ ہدّ و نہال ہو اٹھے۔ ساتھ ہی ان کے دل میں ایک کچوٹ سی اٹھی‌۔ بے چارہ ہاتھی‌۔ استطاعت ہو تی تو کیا آج اسے وہ ٹوکرہ بھرکر حلوہ‌ر وٹی نہ کھلاتے؟ یا پھر میوے وا لا روٹ او رگڑ کی بھیلیاں‌۔
ٹاٹ کے پردے کے پیچھے سے بیوی چلاّ‌ئیں‌۔
’’ ارے اس کمبخت کو ڈھائی گھڑی کی آ وے۔ بچے کھا لیتے حلوہ روٹی جو اس کے پیٹ میں ڈال دیا۔ اس کالےپہاڑ کا کوئی بھلا نہ ہو اور بچے محروم رہ جائیں‌۔‘‘
’’ بچے ہیں کہ راون کی فوج‌! اپنا حصہ کھا چکے یہ ہمارا حصہ تھاہم‌جسے چاہیں د یں۔‘‘ ہدّ و گرجے۔
’’ ہم جسے چاہیں دیں۔‘‘ بیوی نے مونہہ ٹیڑھا کر کے ان کی نقل کی‌۔ شا ید انھیں کوئی معقول جواب نہیں سوجھا تھا۔ اس لیےمونہہ چڑانے پر ہی اکتفا کی‌۔
’’ نیک بخت،اوقات میں رہا کر، شوہر کا مونہہ‌چڑاتی ہے۔ جہنم میں جائے گی‌۔ صبح تین چار گھروں سے حصے آئے۔ سب تیرے یہ سپوت‌اڑا گئے۔ ہم نے ایک نوالہ بھی نہیں کھا یا۔ گئے تھے اسحٰق صاحب کے یہاں‌۔ ان کی اہلیہ، خدا انھیں جنت نصیب کرے، بو لیں ’ سید ہادی حسن، آئے ہو تو فاتحہ‌تمھیں‌پڑھ دو۔‘ ہم نے فاتحہ پڑھی تو اس کا حصہ انھوں نے الگ سے دیا۔‘‘
’’اوئی نوج مردوئے۔ اسحٰق میا ں کی بیوی زندہ، جو ان جہان۔ انھیں کہہ رہا ہے خدا جنت نصیب کرے۔‘‘ ہدّو کی بیوی ایسی دہشت زدہ ہوئیں کہ ذرا دیر کو تو ہاتھی کو حلوہ روٹی کھلا د ئےجانے کا غصہ بھی بھول گئیں‌۔
ہدّ و نے شان بے نیازی سے ہا تھ ہلا یا جیسے مکھی اڑا رہے ہوں۔’’ ارے یہ تو دعاہے جاہل عو رت‌۔ زندگی میں ہی دے دینے میں کیا حرج ہے۔ آخر کبھی تو مریں گی اسحٰق میاں کی جو رو۔ تم بھی ابھی سے ہمارے لیے دعا مانگا کرو کہ اللہ جنت نصیب کرے۔ بڑے گناہ سمیٹ رہے ہیں‌۔ اپنے غریب بے چارے ہا تو کو پیٹ بھر کھانا بھی نہیں دے پاتے۔‘‘
پھر وہی ہاتھی‌۔ بلکہ مارے محبت کے’ ہا تو‘ وہ بھی بے چا‌رہ غریب‌۔ بیوی کی ایڑی میں لگی اور چوٹی میں بجھی‌۔ وہ چھنکیں‌۔
’’ بیوی بچوں کا پیٹ تو بھر لو پہلے۔ لٹکے رہتے ہو اس منحوس ہاتھی کی دُ‌م میں‌۔ شب برات کے شب برات فاتحہ خوانی کے علاوہ بھی کچھ کر لیا کرو۔ اور فاتحہ خوانی بھی اب کہاں‌۔‌جب سے تبلیغی جماعت والوں کازور بڑھا ہے محلے میں فاتحہ کرانے والے گھر بھی بس دو چار ہی رہ گئے ہیں۔نہ جلسے جلوس میں ہاتھی بلا یا جائے نہ تم کچھ کر کے و و۔‘‘
’’کیوں کر یں ہم کچھ اور۔ د ادا پر دادا کے و خَت سے یہی‌فیلبانی کرتے آ رہے ہیں‌۔ اور فاتحہ کیا ہم کسی لالچ میں کرتے ہیں ؟ارے لوگوں میں عزت ہے۔ سید ہیں ہم اور راجہ کے فیلبان ہیں۔ کبھی کبھار لوگ فاتحہ کے لیے کہہ دیتے ہیں۔‘‘ بکتے جھکتے ہدّو ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر اندر دا‌خل ہوئے۔
’’ تمھارے دادا پر دادا کو بھی کچھ اور نہیں ملا تھا کرنے کے لیے۔ بھلابتا ؤ سادا ت اور فیلبانی‌!‘‘ بیوی نے پھر جل‌کرمو نہہ مارا۔’’ خیر خود جو بھی کیاتمھیں کو کچھ اورہنرسکھاجاتے۔ہم تو کہیں اب بھی اس اللہ مارے بوڑھےبھوت کو و ہیں پٹخ آؤ اس موئے راجہ کے۔۔۔ اور کوئی ایسا کام سنبھالو کہ گھر میں چارپیسے جڑیں۔‘‘
ہاتھی کی شان میں کسی قسم کی گستاخی ہدّو کو سخت ناپسند تھی‌۔ بلکہ تقریبا ًناقابلِ بر داشت‌۔ ہاتھی ان کے اجتماعی لا شعور کا ایک حصہ تھے۔ ان کے اجداد میں سے ایک بزرگ سلطنت جون پور کے تیسرے سلطان ابراہیم شاہ شرتی کے زمانے میں فیل خانے کے مہتمم ‌ہوا کر تے تھے۔ شاہی کے وقتوں میں یہ ایک بڑا معزز عہدہ تھا۔ ہدّو کے ذہن کے نہاں خانوں میں ہاتھیوں کے جھنڈ کے جھنڈگھومتے پھرتے تھے۔ وہ ان سب کوگومتی کے پانیوں میں نہلا تے، ان کے لیےمیوہ اور گڑبھرےروٹ تیار کراتے،‌گنّوں کی پھاندیاں اترواتے، اور پیار سے ان کے سوپ جیسے کانوں میں محبت بھرے نرم و شیریں الفاظ یوں اتارتے کہ اڑیل سے اڑیل ہاتھی بھی پالتو کتے کی طرح اٹھ کھڑا ہوتا۔
یہ ہاتھی کے اٹھ کھڑے ہونے کا بھی ایک‌الگ قصہ تھا۔
چودھویں صدی آخری سانسیں لے رہی تھی‌۔ لوگ باگ دہلی کے تاج سے کرکٹ کھیل رہے تھے (اگر چہ کر کٹ اس وقت رائج نہیں تھا )۔ کمز و رمرکز پاکر جو جہاں گو رنر مقرر کیا گیا تھا، فرمانروا بن بیٹھا تھا یا کم از کم بیٹھنے کے پھیر میں تھا۔سلطنت جون پور بھی کئی اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں کی طرح معرضِ وجود میں آگئی۔ بانی‌تھے سلطان‌الشرق ملک‌سرورخواجہ جہاں جو فیرو زشاہ کے وقت میں ہی مشرقی علاقوں کے گورنر بنائے گئے تھے اور باوجود اس کے کہ خواجہ سرا تھے، نہایت لائق وفائق انسان تھے۔ صرف پانچ برس کے دور حکومت میں (کہ قضا و قدر نے اس سے زیادہ مہلت نہیں دی ) جون پور کو دارالسرور بناگئے۔ آ گے چل کر شاہجہاں نے اسے شیرازِ‌ہند کے لقب سے نوازا۔
اس وقت قلعہ فیر و زشاہی میں ہاتھی گھوڑوں کی ریل پیل ہوا کرتی تھی‌۔ کوچ کا نقارہ بجنے پر فوجیں کوچ کیا کر تی تھیں دماد م،دما دم‌۔ شفاف سڑک پر صبح خاکروب جھاڑ و لگا تے اور شام کوبھشتی‌مشکوں سے چھڑکاؤ کر تے۔ سوندھی سوندھی خوشبو اڑ تی تو عالموں کی پالکیاں نکلتیں، خراماں خر اماں‌۔ ڈھال گر ٹولہ میں لو ہار ڈھالیں بنا نے میں مصروف ہو تے اور درسگا ہوں میں طالبعلم اپنے اپنے ذہن کو جلا بخشتے۔ درسگا ہوں نے ایسی شہرت حاصل کی کہ ایک صدی بعد شیر شاہ جیسا مدبر، ذہین اور رعایا پرور بادشاہ یہاں تعلیم حاصل کرنے آیا (ڈھا ل گر ٹو لے میں اب غریب مسلمان بیڑی بنا تے ہیں اور ٹی‌بی میں مبتلا ہو کر قبل از وقت مر جایا کر تے ہیں‌۔ جون پور کے کسی مدر سے میں اب کوئی شیر شاہ پڑھنے نہیں آتا)۔
دہلی میں طوائف‌الملوکی کے اس دور میں جناب امیر تیمورصاحبقر‌اں نے بھی اپنی ترچھی آنکھیں ہندستان کی طرف پھیریں‌۔ بڑے بڑے شہر بشمول دہلی اجاڑ ہوئے جیسے کوئی نہایت منحوس الو بول گیا ہو۔ صاحب علم و اوصاف لوگ عزت اور جان و مال کی حفاظت کے لیے بھاگ بھاگ کرنسبتاً‌پر امن علاقوں میں اکٹھا ہوئے جن میں جون پور بھی تھا جو دارالسر و ر کے بعد دارالا‌مان بھی قرار دیا گیا تھا۔ انھیں دنوں علی گڑھ سے ہجرت کر کے جو اس وقت کوئیل‌کے خوبصورت نام سے جانا جاتا تھا، ایک باریش بزرگ ایک‌مسیں بھیگتے نو جو ان کے ساتھ، جو ان کا پوتا تھا، ہاتھی پر سوار، جون پور سے تین میل دور موضع فیروز شاہ پور میں وارد ہوئے (جون‌پورپرانگریزوں کے قبضے کے بعد یہ موضع ان کے کاغذات میں فروشی پور درج ہوا جسے بعد میں عوام نے پڑوسی پور بنا دیا) یہ‌بزرگ ان مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے بھٹیز‌کے قلعہ کے باہر ہندوؤ‌ں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر تیموری‌سپاہ سے جنگ کی تھی اور شکست یقینی جان کر زن و بچہ قتل کر کے ’ جو ہر‘ کی رسم ادا کی تھی‌۔ زندگی باقی تھی خود بھی بچ گئے اور یہ پوتا بھی جو ان کے ساتھ ہاتھی پر سوار ہو کر جنگ میں شریک تھا۔
سید، عالم دین اور نہایت پاکباز ہونے کے سبب بزرگ جون پور میں ہاتھوں ہا تھ لیےگئے۔اس وقت سلطنت کا فاؤنڈیشن اسٹون نصب کرکے‌خواجہ‌جہاں ر ا ہی ملک عدم ہوچکے تھے۔مونہہ بولا بیٹا مبارک شاہ تخت پر تھا۔ بزرگ کو مبارک شاہ نے ایک قطعہ ا راضی دی جس پر انھوں نے مدرسہ قائم کیا۔ کچھ عرصے بعد ان کا ہاتھی مر گیا تو سلطان نے ہاتھی بھی عنایت‌کیا۔ اطراف کا ایک پنچ گو تی راج پوت بزرگ سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسلام قبول کیا اور اپنی بیٹی ان کے پوتے کے نکاح میں دی‌۔ بزرگ‌ہاتھی والے سید صاحب مشہور ہو گئے اس لیے کہ فیروز شاہ پور سے جون پور آتے تو ہاتھی پر سوار ہو کر ہی آیا کر تے۔ جون پور اب شرقی سلطنت کا صدر مقام تھا۔
سید صاحب کا ہا تھی ایک دن جون پور میں اڑ گیا۔ اٹالہ چوک پر بیٹھا تو بس بیٹھے بیٹھے گھنٹوں کان جھلتا رہا۔ اٹھنے کا نام نہ لے۔ لا کھ مہاوت نے آ‌نکس کے ٹہو کے د ئے، پچکار ا، سارا فن آزما لیا لیکن زمین جنبد، آسمان جنبد، نہ جنبدفیلِ‌سید۔ تب ان کے پوتے کے پانچ سالہ بیٹے نے، جس کی ماں نسلاً راجپوتنی اور مذہباً مسلمان تھی اور جو پردادا کے ساتھ ہاتھی پر بیٹھ کر سیر کرنے چلا آیا تھا ہاتھی کے گلے میں ننھے ننھے ہاتھ ڈال کے اس کے کان میں کچھ کہا۔ ہاتھی فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ قصہ کچھ ایسا زبان زد خاص و عام ہوا کہ لڑکا بڑا ہوا تو سلطان ابراہیم شاہ شرتی نے اس کے پر دادا کی زمینوں میں اضافہ کر کے اسے فیل خانے کا مہتمم مقرر کیا۔ سید ہادی حسن عرف ہدّو میاں کے کرم‌خوردہ شجر‌ے میں فیل خانے کے مہتمم اور پڑوسی پور کے زمیندارسید سنجرحسین کا نام بالکل صاف لکھا نظر آتا ہے۔
ہا تھی کے پیٹ میں اتنا سارا حلوہ اور اصلی گھی لگی دو ستی‌ر و ٹیا ں اپنی آنکھوں کے سامنے جاتے دیکھ کر ہدّو کی اہلیہ کے کلیجے میں دھواں اٹھا تھا اور اب تک اٹھے جا رہا تھا۔ خالی برتن کھڑ کا کھڑ کا کر وہ مسلسل اپنے غصے کا اظہار کر رہی تھیں‌۔ہدّ و پر کوئی اثر نہ ہو تے دیکھ کر انھوں نے پیر پٹخے ’’ اب ہم خود جائیں گے پڑوسی پور اور اس کلمونہے اللہ مارے ہاتھی کو چھوڑ آئیں گے وہاں۔کوس کوس کے تھک گئے۔مرا بھی نہیں‌۔ اب جائے وہاں سفیدے کے د رخت روندے۔ اس موئے راجہ کے سفیدوں کو کیڑے لگیں، سوکھامار جائے۔‘‘
یہ سفیدے کے درختوں کا بھی ایک قصہ تھا:
ہدّو کی بیوی کو سفیدے کے درختوں سے سخت چڑ‌تھی جس میں وہ حق بہ جانب تھیں‌۔ ان کی زندگی کے منظر نامے پر سفیدے کے درخت لکھے جانے سے پہلے زندگی اتنی بے ہنگم اور تاریک نہیں تھی‌۔ پڑ وسی پور کے ز‌میندار بھیرو سنگھ کے یہاں ایک خستہ حویلی، کچھ زمینیں اور ایک عدد ہاتھی، خاتمہ زمینداری کے خاصے عرصے بعد تک بر قرار تھے۔ راجہ صاحب کا لقب بھی برقرار تھا جو بے وقوف رعیت نے انگریزوں کے زمانے میں ان کے بزرگوں کے ہا تھ زمینداری آنے پر انھیں عنایت کیا تھا۔ اس وقت حویلی نہایت حسین اور با رونق ہوا کرتی تھی‌۔ ڈیوڑھی پر تین تین ہاتھی جھولتے تھے جن پر آٹھ ملازم مقرر تھے۔ ان کے خاص مہاوت کی سفارش پر ایک نواں ملازم مقرر کیا گیا۔ یہ ہدّ و کے پردادا کے والد تھے۔
سید سنجر حسین، مہتمم فیل خانہ شا ہی اور محض تین ہاتھیوں پر مشتمل معمولی سے فیل خا نے کے ایک معمولی ملازم کے درمیان گومتی میں بہت سارا پانی بہہ چکا تھا!
راجہ صاحب نے اپنے بچپن کے دوست گیا کے نواب احمد علی خاں سے خاصہ سبق سیکھا تھا۔ ان کے ہاں ہاتھی کے سا تھ رولس رائس بھی تھی‌۔ بچپن میں نواب صاحب کے لیے انگریز گورنس ہوا کر تی تھی‌۔ محل میں پچاس سے تین اوپر کمرے تھے لیکن وہ مرے تو ان کا گھر ایک کوٹھری پر مشتمل رہ گیا تھا۔ ہا تھی اور رولس رائس محل سمیت نہ جانے کن لوگو ں کی جیبوں میں سما گئے تھے۔ انگریز گو رنسں کی جگہ ایک چندھی بڑی بی تھیں جو پرانے وقتوں کے احسانات نبھانے کے لیے دو و قت ر و ٹی ڈال جا یا کر تی تھیں‌۔ سبزی بعض اوقات کافی نہیں ہو تی تھی‌۔نواب صاحب ایسے میں چائے سے روٹی کھا لیا کرتے یا صرف اچار پر اکتفا کرتے۔
راجہ صاحب نے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم د لوائی‌۔ د و تو امریکہ میں جا بسے اور ایک با ہر سے فلم‌سازی کی تر بیت لے کر بمبئی میں مقیم ہوا۔ اشتہاری فلمیں بنانے والا یہ نوجوان اپنے پیشے میں کافی کامیاب ہوا اور چند سال پہلے گاؤ‌ں آیا تو ضد کر کے باپ کو اپنے ساتھ لیتا گیا۔ شکستہ حویلی کی گرتی دیواریں پوری طرح گر وا کر ملحق زمین سے اسے ملا دیا اور وہاں سفیدے کے درخت لگواد ئے کہ یہ نہایت منفعت بخش سودا ہے۔ شاگرد پیشہ کی د و کو ٹھریاں رہنے دیں ان میں اپنی‌پسند اور بھروسے کے مطابق دو جوان صحت‌مند کارندے مقررکئے۔باقی لوگوں کوہدّو اورہاتھی‌سمیت نکال باہر کیا۔ راجہ صاحب کو ہاتھی سے بے حد لگاؤ تھا اور ہدّ و کو اس سے جومحبت تھی اس کے بھی معترف تھے۔ اس لیےہاتھی کو بیچنے کی تجویز پر کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ ہاتھی‌ہدّ و کو سونپ کر جون پور میں ایک غیرمقیم ہند ستانی دوست کے بنگلہ نما مکان کے احاطے میں اس کی رہائش کا انتظام کرا یا اور ماہ بہ ماہ اتنی رقم بھیجنے‌کا وعدہ کیا جو ہاتھی اور ہدّو کی کچھ حد تک کفالت‌ضرور کرسکے۔
اب تھا یہ کہ گاؤ‌ں میں حویلی کے شاگرد پیشے میں رہنے کے بہت فائدے تھے۔ پھل‌پھلاری،‌سبزی ترکاری کی بہتات تھی جو چھوٹی رانی صاحبہ فراخ دلی سے ملازموں میں تقسیم کرتی رہتی تھیں‌۔ ہدّ و کے بچوں کے لیے عید بقر عید میں نئے کپڑے بن جا تے تھے۔ ہدّوفصل پر کٹائی‌ا ور د ائیں میں مدد کر دیتے تو بہت سا غلہ مل جایا کرتا تھا۔ نقدی زیادہ ہا تھ میں نہ آنے پر بھی فراغت کی زندگی تھی‌۔ جو تین بچے اس دور میں پیدا ہوئے وہ نہایت صحت مندتھے۔ جون پور آ کر پیدا ہونے وا لے باقی تین نہایت مریل‌۔ اب تو تینوں بڑے بچوں کے گال بھی پچک گئے تھے۔ وہ اٹالہ مسجد کے پاس کے اقلیتی ادارے کی چھٹی کے اوقات میںچہار دیواری پھلانگ کر اندرگھس جا تے اورگو لیاں اور تاش کھیلتے۔ گھر آتے تو ایسے بھوکےہو تے کہ بس چلتا تو ہنڈیا برتن توڑ کے کھا جائیں‌۔ اس وقت ہدّو کی بیوی کا جی چاہتا کہ وہ سفیدے کے درختوں میں آگ لگا آئیں یا ہاتھی کی تکا بوٹی کر ڈالیں جو بمبئی سے آنے والی قلیل سی رقم کابیشتر‌حصہ کھا جا تا تھا۔
ایک آدھ مرتبہ بیوی نے تجویز رکھی ’’ہم ڈھال گرٹولہ جا کے دیکھ آتے ہیں‌۔ شاید کہیں بیٹری بنانے کا کام مل جائے۔‘‘ ہدّوبے حد ناراض ہوئے ’’ اب تم برقعہ اوڑھ کے گلی محلے کے لونڈوں کے بیچ سٹرپٹر کر تی گھوموگی‌۔سیدانی ہو ذرا یہ تو سوچو۔‘‘
ایک بار بیوی پھرہتھے‌سے اکھڑ گئیں’’ ہم تمھاری طرح کھرے سید نہیں ہیں۔ہماری اماں پٹھانن‌تھیں اور پھر کام کر نے میں ذات کیسی‌۔‘‘ انھوں نے اسی قدر چیں بہ جبیں ہو کر جواب دیا تھا۔’’ سید کی بیٹی ہو نہ‌۔ اور سید کی بیوی بھی‌۔ بس بات ختم‌۔ اماں سے کیا ہوتاہے۔اماں سے نسل نہیں چلا کرتی۔‘‘
اماں سے نسل‌چلتی ہو تی تو پچ گوتیوں کی بیٹی نے کب کا سید و ں کو راجپوت بنا دیا ہو تا۔ اور آ گے چل کر مغلوں کو بھی‌۔ بیوی نے حلوہ روٹی کے لیےزیادہ راڑ مچائی‌تو ہدّ و نےا س دریدہ د ہن‌عورت سے کچھ دیر فرار حاصل کر نے میں ہی عافیت جانی اور‌گھر سے نکل لیے۔ جا تے جا تے ایک نظر ہاتھی پر ڈالی جو مزے سے کُڑ کُڑ‌کر کے پیپل کی ٹہنیاں چبا رہا تھا۔ حسب دستور پتے دیکھ کر محلے کی دو چار بکر یاں بھی آگئی تھیں اور پتوں پر مونہہ‌مار رہی تھیں‌۔ ہا تھی ان سے کبھی‌ناراض نہیں ہو تا۔ شان بے نیازی سے یوں دیکھتا جیسے وہ راجہ ہو اور بکر یاں اس کی غریب رعایا۔ ایک دوسرے کوسینگوں سے ٹھیلتی‌بکریوں میں سے دو ایک بکریاں ہاتھی کودھکے بھی لگا دیتیں تب بھی وہ بر افروختہ نہ ہو تا۔ اس کی اس فراخدلی کو دیکھ کرہدّو بھی کچھ نہ کہتے۔ اس وقت بھی ایک چھوٹی سی بکری اس کے موٹے موٹے ستون جیسےپاؤ‌ں کے بیچ ہو کر سائبان تلے کھڑی جلدی جلدی پتوں پرمونہہ مارر ہی تھی‌۔ ہدّ و کا جی بھر آیا۔
بھاری دل اور بھاری قدموں کے ساتھ چلتے ہدّواٹالہ چو ک پر آ کے کھڑے ہو گئے۔ شاندار اٹالہ سر بلند کئے کھڑی تھی‌۔ سبک نہیں بلکہ مست ہاتھی کی طرح مہیب، بھاری، رعب دار، مسحورکن۔ ایسا لگتا تھا یہ مسجد ابھی چلنے لگے گی اور اس کے ساتھ چل پڑے گی کل کائنات‌۔ دماد م دماد م‌۔ اور شاہی کا وقت پھر لوٹ آئے گا۔
با رونق اٹالہ چوک پر ایک رکشہ اکیلا کھڑا تھا۔ رکشے والا کہیں گیا ہوا تھا۔ شایدچائے پینے یا چائے پی کر پیشاب کرنے۔ یا صبح صبح اسٹیشن سے اچھی کمائی کر لا یا تھا اور کہیں بیٹھ کر اسے اڑا نے کے لیے پتے کھیل رہا تھا۔ ہدّو وہیں کھڑے ہوگئے، کچھ بے دھیان سے۔ ایک برقعہ پوش عورت نزدیک آئی‌۔
’’ اے رکشے والے چلو گے، حما‌م د رواز ہ چلنا ہے۔‘‘ اس نے ہدّو کو مخاطب کیا۔
ہدّ و کو جیسے کسی بھِڑ نے کاٹ لیا۔
’’ ارے ہم تمھیں رکشے والے لگتے ہیں؟ ہم فیل بان ہیں فیل‌بان‌۔ وہ بھی ایسے ویسے نہیں راجہ کے فیل‌بان ہیں‌۔ جا کے دیکھ یا ؤ پر لے محلے میں راجہ صاحب کے رشتے دار کی خالی زمین ہے۔ ہم اس پر رہتے ہیں‌۔ وہیں ہمارا ہاتھی کھڑا ہے۔ سب ہمیں جانتے ہیں اورہمارے ہاتھی کو بھی‌۔ لگتا ہے تم یہاںنئی ہو۔ کسی گاؤ‌ں گراؤ‌ں سے آئی ہو شاید۔‘‘
عورت اس مسلسل بوچھار سے گھبرا گئی‌۔ اسے یہ شخص کچھ سنکی معلوم ہوا۔اس نے تیز تیز قدموں سے سٹک لینے میں ہی عافیت سمجھی‌۔
ہدّو بدبد اتے ہوئے لوٹ آئے۔ عورتوں کے پیچھے لگنا ان کا شیوہ نہ تھا۔ جب ان کا دل زیادہ دکھتا تو ہاتھی سے باتیں کر کے اسے ہلکا‌کر لیتے۔ اس وقت انھیں بڑا صدمہ پہنچا تھا، وہ ہاتھی پر چڑھ گئے اور گردن‌سہلاسہلا کے اس کے کان میں کہنے لگے ’’سُنا بیٹا، ایک پگلی سی عورت تھی، پاگل نہیں تو سنکی ضرور رہی ہوگی‌۔ ہمیں رکشے والا سمجھ رہی تھی‌۔ ارے ہمارے پاس رکشہ کھڑا تھا تو ہم رکشے والے ہوگئے؟ ارے ہم فیلبان‌ہیں فیلبان۔‘‘
ہاتھی نے بڑے بڑے کان جھل کر مکھیاں اڑائیں‌۔
’’ دیکھا ہمارا بیٹا کہہ رہا ہے اور نہیں تو کیا۔سنکی نہیں پوری پاگل رہی ہو گی‌۔ چل بیٹاگومتی چل کے نہلا لائیں تجھے۔ گرمی بہت ہے۔‘‘ بوڑھے ہاتھی نے السائی ہوئی آنکھیں بند کیں اورپھرکھولیں جیسے کہہ رہا ہو’’ اب تمھارا جی چاہ رہا ہے تو لے چلو۔ چلتے ہیں‌۔‘‘
تیکھے نقوش اور جلی جلی سی رنگت والے ہدّو نے اٹالہ سے کچھ دور فیروز شاہی قلعہ کی چڑھائی پر ہانپتے کانپتے رکشہ آگے بڑھا یا تو انھیں بے تحاشہ وہ عورت یاد آئی جس نے کچھ عرصہ پہلے‌رکشہ والا سمجھ کر حمام دروازہ چلنے کے لیے کہا تھا۔ وہ یقیناًکوئی پچھل پیری تھی یا اس کی زبان پر‌کا لاد ھبہ تھا۔ ویسے کالی‌زبان تو ہدّو کی بیوی کی بھی رہی ہو گی جو ہاتھی یوں کھڑا کھڑا مر گیا تھا بے چارہ‌۔ لیکن موت کا ذائقہ تو ہر ذی‌روح کو چکھنا ہے، ہاتھی ہو یا چیونٹی اور مر نے کے لیے صرف ایک وجہ کا فی ہے۔۔۔پیدا ہونا۔اور موت اور پیدائش، ' ان دونوں کے علاوہ اس دنیا میں نہ کچھ حتمی ہے اور نہ قطعی۔ مزید یہ کہ ہاتھی جو خاصہ بوڑھا ہو چلا تھا آدھا پیٹ کھا کے زندہ رہنے والے انسانوں کی طرح زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ لیکن ہدّو کی تسلی کے لیے ان میں سے کوئی حقیقت کا فی نہیں تھی‌۔ وہ بلک بلک کے رویا کرتے تھے۔ ایک قلیل سی آمدنی کا ذریعہ ختم ہو جانے کی وجہ سے نہیں بلکہ ہاتھی کے فراق میں‌۔ نہایت ایمانداری کے ساتھ انھوں نے راجہ صاحب کو ایک پوسٹ کارڈلکھوا کے اس کی اطلاع دے دی تھی‌۔ انھوں نے ہدّو کو کچھ یکمشت رقم بھیجی اور ایک جوڑ کپڑے۔ یہ ان کے لیےخلعت کا قائم‌مقام تھے اور ہاتھی کا آخری تحفہ۔ 
ساری رقم ختم ہو گئی تو ہدّو حاجی رضا علی کے یہاں گئے۔ ان کے یہاں رکشے چلا کر تے تھے۔ اتفاق سے ایک کام چور، ٹی بی کے مریض رکشے والے کو انھوں نے حال ہی میں چھٹی دی تھی‌۔ اس کا رکشہ انھوں نے ہدّو کو تھما دیا۔ شرمسار اورر نجیدہ ہدّو جب پہلے دن گر دن جھکا کے اٹالہ کے رکشہ اسٹینڈ پر کھڑے ہوئے تو ان کا دل بالکل اچاٹ تھا۔ لیکن تب انھوں نے یاد کیا کہ ابھی کچھ دن پہلے ان کے پاس ہاتھی تھا۔ سچ مچ کا ہاتھی‌۔ اور ان کے شجرے میں کہیں سیدسنجر حسین تھے جو شا ہی کے وقتوں میں فیل خانے کے مہتمم ہوا کرتے تھے( اور’’ شیراز‌ہند جون پور‘‘ کے مصنف سید اقبال حسین کا کہنا تھا کہ اس وقت شاہی فیل خانےمیں ہاتھیوں کی تعداد کم از کم چھ سو ضرورتھی‌)
ثبوت کے طور پر ہاتھی کے دانت کچی دیوار پر آویزاں تھے اور شجرہ‌بکس میں محفوظ تھا۔
٭٭٭

تبصرہ و تجزیہ

ریحان کوثر:

میرا تو دل ہی بیٹھ گیا!

ذکیہ مشہدی صاحبہ نے اسی گروپ میں ایڈمن پینل کے ممبران کو اچھی طرح آگاہ کیا تھا کہ ان کا افسانہ گروپ میں نہ لگایا جائے کیونکہ ان کے افسانے طویل ہوا کرتے ہیں۔ مگر۔۔۔! یہ ایڈمن پینل بھی بڑی سخت جان ہے اور ضدی بھی لگا کر ہی دم لیا انھوں نے۔ یہاں میرا کیا؟ کسی کو کوئی خیال نہیں۔۔۔ لیکن یہ افسانہ پڑھ کر میرا تو دل ہی بیٹھ گیا! اب ایسا کیوں ہوا بیٹھیں بتاتا۔۔۔ مطلب رکیں بتاتا ہوں۔۔۔! 
یہ بھی ٹھیک بات ہے کہ ذکیہ مشہدی صاحبہ کے افسانے طویل ہوتے ہوں گے لیکن زیر نظر افسانہ ہدو کا ہاتھی ”بڑا“ ہے۔ ”بہت بڑا!“ اب کوئی بڑا ہو تو دور سے بھی نظر آجاتا ہے جیسے ہدو کا ہاتھی بھلے ہی شرقی سلطنت کی آخری نشانیوں میں سے ایک تھا لیکن تھا تو بڑا ہی! پیپل کے پتوں پر منہ مارتی بکریوں سے کتنا بڑا تھا وہ بوڑھا ہاتھی۔۔۔ تھا یا نہیں تھا؟ اور یہ افسانہ تو اب آپ کے ہاتھوں میں ہے ہی، دیکھیں! ناپ لیجیے کتنا بڑا ہے تو؟
اس افسانے میں افسانہ نگار نے ہدو (سید ہادی حسن) کو جو ایک سید زادے ہیں، ان کے ہاتھی کے ساتھ تاریخ کی سنہری یادوں سے نکال کر حقیقت کی پرخار اور پتھریلی زمین پر لا کھڑا کیا ہے۔ تبلیغی جماعت کی وجہ سے حلوے کی مقدار کم پریشانیاں بڑھ گئی ہے۔ خوش حالی کی نشانی تین بڑے بچے جو صحت مند تھے اب ان کے گال پچک گئے ہیں اور بد حالی کی علامت یعنی باقی تین بچے تو پہلے سے ہی مریل ہیں۔ اس پر ان بچوں کا تاش اور گولیاں کھیلنا، بیوی کی کٹ کٹ یہ سب ہدو کا آج ہے۔ کیا ہدو کے ہاتھی کا مرنا اور اس کے بعد ہدو کا رکشہ چلانا بس اتنی سی کہانی ہے اس افسانے میں؟ جی نہیں! افسانہ نگار نے اس کی کہانی میں صدیوں کی داستانیں رقم کیں ہیں۔
اکثر اس طرح کے افسانے جو تاریخ کے حوالے سے لکھے جاتے ہیں، ان افسانوں میں قاری کہیں کھو کر رہ جاتا ہے۔ افسانےکے پس منظر سے نکل نہیں پاتا، سوچتا رہتا ہے۔ وہیں کہیں گھومتا رہتا ہے۔۔۔ جیسے میں اس وقت جون پور میں بیٹھا ہوں۔ اس طرح کے افسانوں میں اختتام پر قاری کا دل بیٹھ جاتا ہے۔ قاری کے دل کا بیٹھ جانا ہی افسانے کی کامیابی ہے۔ میرا بھی دل بیٹھ گیا جیسے سلطنت شرقی کے سنہری دور میں ایک ہاتھی بیٹھ گیا تھا اور اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا، بالکل ویسے ہی بیٹھا ہے! اس لحاظ سے یہ افسانہ ایک کامیاب افسانہ ہے۔ میرا دل پہلی بار تب بیٹھا تھا جب منشی پریم چند کے ”شطرنج کے کھلاڑی“ پہلی مرتبی شطرنج کھیلنے بیٹھے تھے۔ اس افسانے میں ہدو کے رکشہ چلانے تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
قاری اپنی فکر کو شرقی سلطنت اور جون پور تک محدود رکھے تو وہ نہ ہدو کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے ہاتھی کو۔ عنوان میں جن کرداروں کے نام شامل ہے وہی دونوں اس کہانی کے اہم کردار ہیں۔ تیسرا اہم کردار رکشہ ہے، کہانی میں جس کی انٹری سب سے آخر میں ہوتی ہے اور یہیں سے قاری کا دل بیٹھ جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ ایک سید زادہ ہدو جس کی رگوں میں پٹھان اور راج پتانیوں کا دودھ لہو بن کر دوڑ رہا ہے اس کے رکشے میں پتہ نہیں کون کون بیٹھتا ہوں گا؟ وہ عورت سنکی پاگل کہیں کی جس نے ہدو کو رکشے والا سمجھا تھا اگر کبھی وہ یا اس جیسا کوئی اس کے رکشے میں بیٹھتا ہوگا تو ہدو کا حال کیا ہوتا ہوگا؟ رکشے میں پیچھے بیٹھی اپنی سواری سے اس کا روم روم کہتا ہوگا،
’’ارے ہم تمھیں رکشے والے لگتے ہیں؟ ہم فیل بان ہیں فیل بان۔ وہ بھی ایسے ویسےنہیں راجہ کے فیل بان ہیں۔ جا کے دیکھ یا ؤ پرلے محلے میں راجہ صاحب کے رشتے دار کی خالی زمین ہے۔ہم اس پر رہتے ہیں۔ وہیں ہمارا ہاتھی کھڑا ہے۔ سب ہمیں جانتے ہیں اور ہمارے ہاتھی کوبھی۔ لگتا ہے تم یہاں نئی ہو۔ کسی گاؤں گراؤں سے آئی ہو شاید۔ ‘‘
لیکن اس کی سوری تک یہ آواز نہیں جاتی ہوگی۔کیا ہدو کا دل نہیں بیٹھ جاتا ہوگا۔۔۔؟ اب میری یہ تحریریں پڑھتے وقت کچھ لوگ کہیں کہ وہ شرم سے پانی پانی بھی تو ہو سکتا ہے؟ لیکن ایک بات بتا دوں کہ مرنے کی خبر سن کر کوئی شرم سے پانی پانی نہیں ہوتا۔۔۔ بلکہ اس کا دل بیٹھ جاتا ہے، میرے دل کی طرح!
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments