محمد علیم اسماعیل:
مکرمی اساتذۂ کرام ، کہنہ مشق قلم کار اور دیگر اراکینِ بزمِ افسانہ!
آداب و سلام!
بزمِ افسانہ میں عصری افسانوں کے دو ایونٹ انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ پہلے ایونٹ میں ستر اور دوسرے میں تیس افسانے شامل کیے گئے تھے۔ ان کل سو افسانوں میں بیشتر اچھے، معیاری، بہترین اور عمدہ تھے تو وہیں چند ایک افسانے غیر معیاری، کمزور اور بہت کمزور بھی شامل ہو گئے تھے۔ اچھے اور عمدہ افسانوں کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھا گیا، سراہا گیا، مبارکبادیں دی گئیں۔ دوسری طرف کمزور افسانوں پر افسانہ نگاروں کی رہنمائی کی گئی، تلقین کی گئی اور بعض صورتوں میں تحریر کو سخت سے سخت تنقیدی زد میں بھی لایا گیا۔
اچھے، معیاری اور عمدہ افسانوں کا انتخاب راست طور پر سلام بن رزاق صاحب کا تھا۔ البتہ کمزور افسانوں کا انتخاب ایڈمن پینل کے نوجوان اراکین کا تھا (ہمیں اعتراف ہے مگر ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ افسانے کمزور کیوں ہوتے ہیں۔) ظاہر ہے اس عمل میں نوجوان منتظمین کا مطالعہ کم ہے، انھوں تعلق داری نبھائی ہوگی، کسی سے مرعوب ہوئے ہوں گے یا اور کوئی سبب رہا ہوگا کہ انھیں چند کمزور افسانے بھی شامل کرنے پڑے۔ البتہ جواز یہ بھی ممکن ہے کہ کمزور افسانے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے، ان کی تخلیقات کی اصلاح کی جائے یا پھر یہ کہ کمزور افسانے نہیں پڑھیں گے تو پتہ کیسے چلے گا کہ کون سے افسانے کمزور ہوتے ہیں۔
خیر بہر حال، لیکن یہاں واضح کیا جاتا ہے کہ عصری افسانہ کے اگلے ایونٹ میں شامل ہونے والے افسانوں کا انتخاب سخت ہوگا۔ ان شاءاللہ۔ ہم لوگ کوشش کر رہے ہیں ایک کمیٹی تشکیل دینے کی کہ جو افسانوں میں سے کم از کم اچھے افسانوں کا انتخاب کرے گی۔ لہٰذا خاص طور پر جونیئرز اور نو واردان افسانہ سے التماس ہے کہ وہ اپنا بہترین افسانہ پیش کریں۔
جلد ہی اگلے عصری افسانہ ایونٹ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا ساتھ ہی افسانہ بھیجنے کی گزارش بھی کی جائے گی۔ ان شاءاللہ۔
(نوٹ: اعلان ہوجانے کے بعد ہی افسانہ ارسال کریں، اعلان سے قبل اپنا افسانہ کسی بھی ایڈمن کو ارسال نہ کریں۔ از راہ کرم!)
آئیے اس تیس افسانوں کے ایونٹ پر تاثرات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ واضح رہے تاثرات کے لیے اگلے دو دن مختص ہیں، اس کے بعد ہم پورے ایک ہفتے کا وقفہ لیں گے۔ اس وقفے کے بعد نیا ایونٹ شروع کیا جائے گا۔ ان شاءاللہ
منتظمین بزمِ افسانہ
محمد سراج عظیم:
آپ لوگوں کا اعتراف کمزور افسانوں کے سلسلے آپ کی نیک نیتی کا مظہر ہے لیکن کمزور کو اگر بزم میں نہیں لایا جائے گا تو آداب زندگی کیسے سیکھے گا بہرحال وہ بھی ضروری تھا آپ لوگوں کو احساس ندامت نہیں ہونا چاہئے شاید کسی ممبر نے اس پر اعتراض بہت ناگواری کے ساتھ نہیں کیا ہوگا سلام صاحب اور اپ لوگوں نے اب تک سارے ایونٹ بہت تحمل اور خوبصورتی سے منعقد کئے ہین جس کے لئے اپ سب لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بزم افسانہ بہت کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے میرا ماننا اپ لوگوں کے اس اقدام کو اردو ادب کی نئی یا کہون ڈیجیٹل ایج میں ایک نمایان مقام حاصل رہے گا بس ایک درخواست تھی کہ افسانوں پر جو تبصرے تجزئے ہوئے ہیں وہ کتابی شکل میں محفوظ ہو جائیں اگر یہ نہ ہوسکے تو لوگ ذاتی طور پر اپنے افسانہ کے اوپر تبصرو تجزیوں کو کتابی شکل میں لے آئیں یہ جبھی ممکن ہوسکے گا جب آپ لوگ اس کی اجازت دیں گے اس بزم میں جو بھی پیش رفت ہوئی ہے وہ سرمائہ محفوظ ہوجائے گااتنی چیزیں ضائع نہ ہوں بہرحال سلام صاحب ایدمن پینل اور گروپ کے تمام لوگوں کو مبارکباد۔
طاہر انجم صدیقی:
بزمِ افسانہ میں شامل معززین دو ایونٹس کے مابین کا وقفہ بزم کی روایات کا مظہر ہے۔ نیز اس وقفے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرنا بھی بزمِ افسانہ کی روایات کیں شامل ہے۔ اس ایونٹ کے حسن و قبح دونوں پر گفتگو کریں تاکہ حوصلہ افزائی بھی ہو اور منزل کے نشانات بھی روشن ہوں۔
سدی ساجدہ جمال:
اس ایونٹ کا اختتام بھی دوسرے ایونٹ کی طرح خوب رہا۔ بہت کچھ سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ آیا کے کیا لکھنا اور کیا نہیں لکھنا اور کتنا قاری پر چھوڑ نا چاہیے۔
ایسی ذہنی اور تحریری اصلاح ملی جو آنے والے دنوں میں ایک اچھا افسانے لکھنے کے لئے نئی راہیں ہموار کرسکے۔
کچھ نئے رشتے اور کچھ نئے نام۔۔۔
جو ادبی دوستی کے ذریعے تحفے کی صورت ملے۔۔۔
نئے اور پرانے ادب سے شناسائی نے ذہن میں ایک ایسا پل تعمیر کیا جس پر چلنے کے بعد ذہن کے گوشے روشن ہوسکے۔۔
گھر بیٹھے بیٹھے ایک اصلاحی لائبریری ہاتھ لگی جس لائبریری میں ہم جب چاہے اپنی مرضی کے مطابق آ اور جا سکتے ہیں۔۔۔
ایسا ادبی ماحول ملا جہاں ایک کا درد کسی ایک کا نا ہوکر پورے
بزمِ افسانہ کا درد لگا۔۔۔۔
یہ بزم تجربے کی ایسی بھٹی نظر آئی جہاں انسان کے ہنر کو تپا کر نکھار کر کندن بنانے کی کوشش کی جاتی ہو۔۔۔
بہت اچھا تجربہ رہا میری طرف سے بزم میں شامل سبھی افسانہ نگار مبصرین اراکین ایڈمنس اور انہیں بھی مبارکباد جو خاموش رہ کر اس بزم کی کارکردگیوں پر نظر رکھیں ہوۓ ہیں۔۔۔
منتظم بزم افسانہ کے حوصلوں کو سلام جنھوں نے اتنی اچھی طرح بزم کی کاروائیوں کو جوش اور حوصلے کے ساتھ جاری رکھا۔۔۔
آئندہ کے لئے نیک خواہشات!
عارفہ خالد شیخ:
بزمِ افسانہ کا چھٹا عصری ایونٹ
تاثرات : عارفہ خالد شیخ
عصری ایونٹ کے تحت لگنے والے افسانوں نے جہاں عصر حاضر کے کہنہ مشق ادیبہ/ادیب، افسانہ نگاروں کی شاندار تخلیقات سے رو شناس کروایا،ونہی نئے قلم کاروں کی کچی پکی تحریریں بھی دیکھنے ملی۔اُن میں خاکسار کا نام بھی شامل ہے۔۔۔
منجھے ہوئے افسانہ نگاروں کے کسے ہوئے افسانچے پڑھ دل عش عش کر اٹھا۔۔
بزم کے منتظمین نے اس ایونٹ میں جونیئرز کے ساتھ سینئرز کے افسانوں کے تال میل کو برقرار رکھتے ہوئے توازن قیام کرنے کی کوشش کی،جو قابل ستائش اقدام رہا۔۔
معیاری افسانوں نے جہاں ہر طرح کے سیکھنے اور سمجھنے کے در وا کر رکھے تھے ونہی کمزور افسانوں نے طبیعت مکدر کر دی۔
اچھے تو اچھے ہی رہے،مگر کمزور افسانوں نے بھی یہ آشکار کیا کہ ہم کہاں غلطی پر ہیں۔۔ایک کامیاب افسانے کا دارومدار،اس کے موضوع سے لیکر،اسلوب،متن،زبان،بیان،تخیل وغیرہ پر ہوتا ہے۔۔
یہ درس ہمیں کمزور افسانوں نے ہی باور کروایا۔۔
شروع سے بزم کے ممبران اور اراکین نے صرف اور صرف افسانے کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی تبصرے و تجزیے کیے۔پِھر چاہے وہ جونیئرز کے ہوں یا سینیئر ز کے۔ پوری ایمانداری اور دل جمعی کے ساتھ افسانوں سے وفا کی۔
بہر حال اچھے،عمدہ،بہت عمدہ،کمزور افسانچوں کو پڑھنے کا موقع ملا ۔بزم میں شامل معزز اراکینِ کے تبصرے تو پڑھتے آئے،اس ایونٹ کے ذریعے اُن کے افسانے بھی پڑھنے ملے۔۔۔
شامل افسانوں کا موضوع ہمہ جہت لئے ہوئے تھے۔۔
جن میں عرفانیت ،تصوف سے لیکر جنس تک تمام مضوعات کو برتا گیا۔۔۔
جو شخصی نشونما اور تربیت کے رموز لیے ہوے تھا۔
ہر افسانے کے اواخر میں اختتامیہ بھی خوب ہوتا۔جو افسانہ نگار کی ادبی سرگرمیوں کو واضح کرتا۔۔۔
بزم کے منتظمین نے جس منظم طریقے سے بزم کی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھا وہ دیدنی رہا۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ بزم کی رونقیں خوب پھولے پھلیں اور ترقی کی ساری منازل طے کریں۔۔
ڈاکٹر عائشہ فرحین:
سبھی ایونٹ اچھے رہے۔اس ایونٹ میں " اچھے،بہت اچھے،کمزور ،بہت کمزور،کامیاب، شاہکار،سبھی طرح کے افسانے پیش ہوئے۔ ان افسانوں بالخصوص افسانوں پر ہوئے تبصروں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا۔
تمام ایونٹس کو بحسن وخوبی مکمل کرنے میں منتظمین بزم کی محنت صاف عیاں ہے۔جس کے لیے سرپرست بزم اور منتظمین بزم کو مبارکباد اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات۔
اگلے ایونٹ سے متعلق جو باتیں منتظمین بزم نے بتائی ہیں۔خاص افسانوں کے انتخاب کے متعلق کہ "اچھے افسانوں کا انتخاب ہوگا۔"
بالکل درست فیصلہ ہے۔
اس حوالے سے میری ایک گزارش ہےکہ
یہ شرط بھی رکھی جائے کہ افسانہ غیر مطبوعہ یا سال دو سال کے دوران ہی تحریر کردہ ہو۔
کیوں کہ
کئی سال پرانے مجموعوں میں شامل افسانے بھی عصری ایونٹ میں شامل ہوئے اور ان پر مبصرین نے بڑی محنت سے تبصرے کئے۔
ان تبصروں کے بعد کیا اب افسانہ نگار اپنے ان افسانوں میں ردو بدل کر پائیں گے؟
جبکہ یہ افسانے پہلے ہی اشاعت کی سند پاچکے ہیں۔ اس لیے بہتر ہےکہ کم از کم افسانوی مجموعوں میں شامل افسانے نہ پیش کیے جائیں۔"
یہ بس ایک مشورہ ہے۔آگے سرپرست بزم اور منتظمین بزم کاجو بھی فیصلہ کریں قبول ہے۔
بزم افسانہ کی کامیابی میں اراکین، بالخصوص مبصرین کاساتھ بے حد اہم ہے۔تمام مبصرین کے علمی و ادبی تبصروں سے مستفید ہونے کا موقعہ ملا۔جس کے لیے سبھی کا شکریہ
اگلے ایونٹ کے لیے نیک خواہشات۔
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر:
عصری ایونٹ اختتام پذیر ہوا۔ بزم افسانہ کے ایڈمن نے جو محفل سجائ اس نے ہمیں محبت، خوشی غم، غصہ، ہجرو وصال جیسے جذبات سے سرابور کر دیا۔ بہت سے افسانہ نگاروں کے قلم کے جوہر نظر نواز ہوئے ۔ایسے افسانہ نگاروں سے بھی واقفیت ہوئی جن کو ہم نے اس سے پہلے نہیں پڑھا تھا۔ کئی مشہور افسانہ نگاروں کے افسانے وہ اثر نہیں چھوڑ پائے جن کی توقعات ہمیں تھی، بہت سے نئے قلمکاروں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔
اس بزم کو مبصرین کے تبصروں نے کامیابی عطا کی اگر صحت مند تنقید نہ ہو تو کوئی بھی فن پارہ ادب کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا۔ہمارے مبصرین نے بہت عرق ریزی سے افسانوں کے حسن و قج کی طرف اشارے کئے ہیں۔ خاص طور پر سلام صاحب، نثار انجم صاحب، قیوم اثر صاحب ،عارفہ خالد شیخ، فریدہ بیگم، عائشہ فرحین، انور مرزا صاحب نے اتنی مصروفیت کے باوجود آپ نے قیمتی مشوروں سے نوازا۔
اس بزم کے طفیل ہی ریحان کوثر صاحب نے ہم جیسے قلمکاروں کو اپنے شمارے میں جگہ دی۔ ایڈمن پینل اور اراکین بزم کو بہت مبارکباد۔
انور مرزا:
بزمِ افسانہ سے میَں اُس دن سے وابستہ ہوں... جب بزم کے پہلے ایونٹ کا پہلا افسانہ پیش کیا گیا تھا... تین دن بعد 23 اپریل 2020 کو وسیم عقیل شاہ صاحب کے تاثرات جاننے کے لیے میَں نے اپنا اوّلین غیر مطبوعہ افسانہ ’کچھ بولوگے نہیں‘ اُنہیں بھیجا...
مجھے گُمان بھی نہیں تھا کہ میرا افسانہ بھی بزم میں پیش کیا جا سکتا ہے... کیونکہ اِس بزم میں اُردو ادب کے ایک سے بڑھ کر ایک عالم، دانشور اور فکشن نِگار موجود ہیں... اور ایک دن قبل ہی اہم افسانہ نِگار شموئل احمد صاحب کا ’سنگھاردان‘ پیش کیا گیا تھا...
وسیم صاحب نے فوراً میرا افسانہ، بزم میں پیش کرنے کے لیے محفوظ کر لیا اور بارہویں دن ہی ’کچھ بولو گے نہیں‘ بزم میں اپ لوڈ ہو گیا۔۔۔ یہ افسانہ وسیم صاحب کا انتخاب تھا...اُن کا خلوص اور سلام بن رزاق صاحب کی اپنائیت تھی...جس کے لیے میَں بزم کا ہمیشہ مشکور رہوں گا۔۔۔
اِس افسانے پر 40 سے 45 اراکین/مبصرین/افسانہ نِگاروں نے تبصرے، تجزیے پیش کئے تھے...حالانکہ افسانہ نگار کی حیثیت سے کوئی مجھے جانتا تک نہ تھا۔۔۔
اور ہاں...ایک بات اور...جہاں تک مجھے یاد ہے... بزم میں سب سے زیادہ تبصرے معروف افسانہ نِگار ایم۔مُبین صاحب کے افسانے ’زندگی الرٹ‘ پر کئے گئے تھے...اُس کے بعدسب سے زیادہ تبصروں کا ریکارڈ وسیم عقیل شاہ صاحب کے پاس ہے...اُن کے ’آشواسن‘ افسانہ کے لیے...
آج یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ افسانوں پر تبصروں کی تعداد اُنگلیوں پر گِنی جاسکتی ہے...ایسا کیوں؟ یہ غور و فِکر کا معاملہ ہے... میرا خیال ہے بزم کے اراکین کو اِس سلسلے میں اظہارخیال کرنا چاہئیے... شکریہ
ڈاکٹر فریدہ بیگم:
سر پرست اعلی محترم المقام سلام بن رزاق صاحب دیگر منتظمین بزم۔اور عزت مآب اساتذہ اکرام، معتبر مبصرین ، معزز ناظرین حضرات و خواتین
السلام و علیکم و رحمت اللہ برکاتہ
سب سے پہلے ہم آپ سب کو یہ بتا دیں کہ اس بار بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے ہم اس بزم میں زیادہ شرکت نہیں کر سکے اس کے لئے معذرت خواہ ہیں اس کے بارے میں منتظمین کو بھی آگاہ کیا گیا تھا۔
یہ تحریر بھی ہم انہی مصروفیت میں سے لکھ رہے ہیں۔شاید اس بار یکسوئی سے تفصیل سے لکھنا ہمارے لئے بہت دشوار ہے۔
خیر کسی بھی بزم کو چلانے کے لئے صبر و استقامت ضروری ہوتا ہے
ہر قسم کے لوگوں کے متفرق خیالات کا سامنا کرنا انہیں سمجھا نا پھر بزم کے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھنا یہ صبر آزما کام ہے جسے اس بزم سر پرست اعلی اور منتظمین نے بہ حسن خوبی نبھایا ۔ہم اس کے لیے انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
"عصری ایونٹ" میں مختلف النوع قسم کے افسانوں سے روبرو ہونے کے مواقع فراہم ہوئے اس میں کچھ کمزور ،کچھ اچھے،کچھ بہت اچھے،کچھ عمدہ افسانے رہے۔ہمیں بہت تجربات سے آگاہی ہوئی۔
یہ بہت اچھا پلیٹ فارم ہے یہ بہت ہی اہم تجربہ گاہ ہے۔یہ تخلیق،تبصرہ، اور تنقید سیکھنے کی درسگاہ ہے۔
یہاں ہم تو صرف ایک طالبہ ہیں اور روز کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنی تخلیق کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھا سمجھا ہے۔
اس بزم میں ہمیں شامل کرنے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرنے پر ہم بزم کے منتظمین کے بےحد سپاس گزار ہیں۔
جہاں تک تبصروں کی بات ہے یہ تبصرے ہی ہماری راہیں ہموار کرتے ہیں ہم یہاں بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ سیکھنے کی اگر ہم خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں اس واقعہ سے ضرور درس لینا چاہئے۔۔
فرانس کے نامور افسانہ نگار موپساں نے جب افسانہ نگاری کی شروعات کی تو کسی شناسا کی مدد سے وہ اس دور کے سب سے بڑے ناول اور افسانہ نگار فلوبئیر سے ملا۔ فلوبئیر اپنے گھر کے لیونگ روم میں آتش دان کے پاس ایزی چئیر پر بیٹھا تھا۔ اس نے موپساں سے افسانہ سنانے کو کہا' موپساں نے اپنا افسانہ سنایا۔ فلوبئیر نے افسانہ سن کر موپساں سے افسانہ لیا اوراسے آتش دان میں ڈال دیا اس کے بعد موپساں سے کہا 'کل دوسرا افسانہ لکھ کر لانا'۔ دوسرے دن موپساں پھر ایک افسانہ لے کر گیا' فلوبئیر نے سنا اور پھر اس کے ہاتھ سے لے کر آتشدان میں جلا دیا۔ غرض تیس دن تک فلوبئیر موپساں سے روز ایک افسانہ سنتا اور اسے آتش دان میں ڈال دیتا۔ ایک مہینہ بعد اس نے موپساں سے کہا کہ 'میرے گھر آتے وقت گلی کے کونے پر ایک بھکارن بیٹھی تم نے دیکھی ہوگی' کل اس پر افسانہ لکھ کر لانا' دوسرے دن موپساں اس بھکارن پر افسانہ لکھ کر لے گیا 'فلوبئیر نے اسے سنا اور اسے لے کر اپنے نوٹ کے ساتھ فرانس کے سب سے بڑے پرچہ میں شائع ہونے کے لیے بھیج دیا۔ افسانہ شائع ہوتے ہی موپساں کی دھوم مچ گئی اور وہ بڑا تخلیق کار بن گیا۔
جب فلوبئیر بیمار ہوا اور اس کا آخری وقت تھا تو موپساں اس سے ملنے گیا۔ فلوبئیر اسی جگہ آتش دان کے پاس ایزی چئیر پر لیٹا تھا۔ موپساں بات کرتے وقت چوری چوری آتش دان کو دیکھ رہا تھا۔ فلوبئیر نے غور کر لیا اور پوچھا 'موپساں تم بار بار آتش دان میں کیا دیکھ رہے ہو 'موپساں نے کہا 'اس آتش دان میں فرانس کی نہ جانے کتنی بڑی بڑی تخلیقات جل کر راکھ ہو گئیں۔ 'فلوبئیر اٹھ کر بیٹھ گیا اور غصہ سے بولا 'موپساں تم بھول رہے ہو کہ اگر یہ آتش دان نہیں ہوتا تو آج موپساں تم فرانس کے اتنے بڑے تخلیق کار نہیں ہوتے'
یہاں ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ تخلیق کار وں کو بالخصوص نئے لکھنے والوں کو یہ غور کرنا ہوگا مشق لازمی کیوں ہے ۔ انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ ان کے افسانوں پر تبصرہ نگار کہاں ملیں گے۔ اس لئے ان پر کئے گئے تبصرے یا تنقید پر برا نہیں ماننا چاہیئے۔ ہر تبصرہ نگار کا مقصد صرف ان خامیوں کی نشاندہی سے اصلاح مقصود ہے ۔کسی کی دل ازاری ہرگز نہیں۔ تاکہ افسانہ نگار مستقبل میں خوب سے خوب تر کی تخلیق کر سکے۔
ہم اس خصوص میں سبھی تبصرہ نگاروں بالخصوص نئے تبصرہ نگاروں کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ ان کا قیمتی وقت اس کار خیر علم سیکھنے سکھانے میں صرف ہورہا ہے۔ اس ضمن میں اگر ہمارے تبصروں سے کسی کی دل ازاری ہوئی ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں ۔۔
آخر میں اس بزم کے لئے دعاگو ہیں کہ اس کے علم و ادب کی شمعیں یوں ہی جلتی رہیں۔ رونقیں بنی رہیں۔علم و ادب مرحلہ جاری رہے۔ آمین
وسیم عقیل شاہ:
تمام اراکین کا جنھوں نے اس تیس افسانوں کے ایونٹ پر اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا ایڈمن پینل کی جانب سے شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ گروپ کی سرگرمیاں اگلے سات دنوں کے لیے معطل کی جاتی ہیں، سات دن بعد ایک نئے ایونٹ کے ساتھ گروپ کی سرگرمیاں جاری کی جائیں گی۔ ان شاءاللہ۔
0 Comments