مہمان
خان حسنین عاقب
تعارف:
خان حسنین عاقب مہاراشٹر کے ایک چھوٹے شہر پوسد، ضلع ایوت محل سے وابستہ ہیں۔ درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں اور اردو شاعری میں اپنی فکر و فن کے حوالے سے منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی سرکردہ ہیں۔ ادبی، علمی اور درسی، کل ملاکر ان کی اب تک سولہ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جن میں شاعری کے ساتھ ہی تحقیق و تنقید پر بھی چند ایک کتابیں ہیں۔ انگریزی، مراٹھی، ہندی اور فارسی زبانوں میں آپ نے معکوس ترجمہ نگاری بھی کی ہے، یوں آپ کی پہچان حلقہ علم و ادب میں ایک مترجم کی بھی ہے۔ آپ کا ایک قابل قدر کارنامہ قرآن پاک کے تیسویں پارے کی تمام سورتوں کا انگریزی زبان میں منظوم ترجمہ ہے۔ نیز گزشتہ۔ 5۔7 برسوں سے ادارہ بال بھارتی کی اردو نصابی کمیٹی میں بہ حیثیت ممبر آپ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
٭٭٭
ممبئی اپنی رنگارنگیوں کی وجہ سے عالم میں انتخاب شہر ہے۔ لیکن جن سڑکوں پر پیدل چلتے ہوئے کبھی کھوے سے کھوا چھِلتا تھا، اب انھی سڑکوں پر ہو کا عالم ہے۔ ہر طرف سناٹا پسرا ہوا ہے۔ تھوڑی بہت ہلچل اگر کہیں نظر آتی ہے تو وہ مضافاتی علاقوں اور جھگی جھونپڑیوں میں۔ اسی ممبئی شہر کے علاقے وِلے پارلے کے مشرق میں آدھا کلومیٹر پیدل چلیں تو بائیں جانب لکشمی چال ہے۔ یہ چال نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی گلیوں کا ایسا جال ہے کہ اگر کوئی نیا بندہ ایک مرتبہ کسی ایک گلی میں گھس جائے تو گھنٹوں باہر نہ نکل پائے۔ یہ گلیاں نہیں بھول بھلیاں ہے۔ ان دنوں سارے ممبئی شہر میں MHADA کی بلڈنگیں بن رہی ہیں۔بیٹھی چال کی جگہ کثیر منزلہ بلڈنگیں لے رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک نئی تعمیر شدہ بلڈنگ کی نویں منزل پر اکرم قریشی کا گھر ہے۔ گھر کیا ہے، بس ایک چھوٹی سی جگہ ہے جسے دیواروں سے گھیر دیا گیا ہے۔ انگریزی زبان میں اسے فلیٹ کہتے ہیں۔ اس فلیٹ میں ایک چھوٹا سا ہال، اس سے بھی چھوٹا بیڈروم، کچن کے نام پر چولہے کے سامنے چار لوگوں کے کھڑے رہنے کی جگہ اور ماچس کی ڈبیا جتنے باتھ روم اور ٹوائلٹ۔ اس پوری بلڈنگ میں ایسے چار سو پینسٹھ فلیٹ ہیں۔ گھر میں اکرم قریشی، ان کی بیوی سلمہ، چار بیٹے رہتے ہیں۔ ملک میں لاک ڈاؤن کیا شروع ہوا، حالات ہی بدل گئے۔ صورتِ حال مخدوش سے مخدوش تر ہوتی چلی گئی۔ آج پچیسواں دن آن پہنچا تھا لاک ڈاؤن کا۔
اکرم قریشی کے اس فلیٹ میں گجرات کے مشہور شہر سورت سے ان کی سالی صادقہ اپنے ایک بیٹے اور بیٹی کے ساتھ گزشتہ پچیس سالوں میں پہلی مرتبہ ان کے گھر آئی تھی۔وہ آئی تو تھی تین دنوں کے لیے لیکن لاک ڈاؤن اچانک نافذ ہوگیا اور پھر شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلاگیا۔ اس پر طرہ یہ کہ اکرم میاں کی بیٹی جس کی دو مہینے قبل ہی شادی ہوئی تھی، شادی کے بعد پہلی مرتبہ میکے آئی اور لاک ڈاؤن کا شکار ہوکر یہیں اٹک کر رہ گئی۔ یعنی اب گھر میں چھ ریگولر افراد کے علاوہ چار اضافی افراد بھی موجود تھے۔ صادقہ کے لیے تو معاملہ ’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ کا ہوگیا تھا۔
ایسی وباء جس کا نام کورونا تھا اور جو بیک وقت ساری دنیا پر مسلط کردی گئی تھی، انسانی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی کانوں نے اس کے بارے میں پہلے کبھی سنا تھا۔
اکرم میاں میں جو بہت ساری خوبیاں تھیں ان میں ایک تو یہ تھی کہ وہ بہت گرم مزاج تھے اور دوسری خوبی یہ تھی کہ ان کی زبان پر مغلظات کی کثافت کی تہہ نہایت دبیز تھی اور عمر کے ساٹھویں برس میں اس کی دبازت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔
مہمان تین دن کا ٹھیک! اکرم میاں کا ایمان تین دن کی مہمانداری پر راسخ تھا۔ اس سے زیادہ کے وہ قائل نہ تھے۔ چوتھے دن وہ زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن اس کے باوجود مہمان بغیر کچھ کہے سب کچھ سمجھ جاتا۔ صادقہ، اس کی بیٹی حامدہ اور بیٹا فراز بھی بہت کچھ سمجھ رہے تھے۔ وہ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن نے اس چھوٹے سے فلیٹ کی چار دیواروں کو ایسے سکیڑ دیا ہے جیسے کسی الاسٹک کو کھینچ کر چھوڑدیا جائے۔
اتنے سارے افراد اتنے سے گھر میں مقید، محصور و معذورہوکررہ گئے۔ مہمان مہمان نہ رہا اور میزبان بھی میزبان نہ رہا۔ تکلفات کے سارے پردے درمیان سے اٹھ گئے تھے۔ صادقہ سینکڑوں کلومیڑ کی مسافت طے کرکے اپنی شادی کے بعد پہلی مرتبہ ممبئی آئی تھی اور یہاں آکر یہ سب کچھ ہوگیا۔ وہ اپنے پیچھے عمر کی سنچری مکمل کرتی ساس، اپنے سرکاری ملازم شوہر، ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو چھوڑ آئی تھی جو روز اسے فون کرکے یاد دلاتے کہ ’امّاں (صادقہ کی ساس) آپ کو بہت یاد کررہی ہیں۔‘
گزشتہ پچیس دنوں میں اس فلیٹ کا ماحول نہایت بوجھل ہوگیا تھا۔ ایک تو یوں بھی اکرم میاں کسی کو نچلا بیٹھے دیکھ نہیں سکتے تھے اور پھر مہمان! خدا کی پناہ! روبینہ تو خیر ان کی اپنی بیٹی تھی جو شادی کے پہلے بھی اسی فلیٹ میں رہتی تھی لیکن۔۔۔
صادقہ، حامدہ اور فراز، روز دعائیں مانگتے کہ اللہ! ٹرین کم از کم ایک روز کے لیے ہی کھول دے۔ یا کم از کم واپس گھر جانے کا کوئی ذریعہ بنادے۔ مگر ہر مرتبہ اللہ نے ان کی دعاؤں کو قبولیت والے خانے سے باہر ہی رکھا تھا۔
دن گزررہے تھے۔ گزر کیا رہے تھے بلکہ گزارے جارہے تھے کہ اچانک ایک روز کہیں سے گھومتے گھامتے یہ خبر گھر میں پہنچی کہ سرکار کی جانب سے لاک ڈاؤن میں دو دن کی رعایت دی جارہی ہے۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ خبر سنانے والی زبان اکرم میاں کی تھی۔ اب یہ تو خدا ہی جانے کہ یہ خبر تھی یا محض افواہ! لیکن اسے سنتے ہی صادقہ سورت واپس جانے کے لیے بے چین ہوگئی۔ اس نے اکرم میاں کی منت سماجت کی کہ کسی بھی قیمت پر اس کے واپس جانے کا انتظام کردیں۔
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں!
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تھا یا بلی نے خود ہی چھینکا توڑلیا تھا، یہ تو اکرم میاں جانتے تھے یا ان کا خدا۔
اکرم میاں کے چہرے کی تازگی واپس آگئی اور انھوں نے اپنی پوری طاقت، صلاحیت اور تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پانچ گنا کرائے پر ایک بھروسے مند ٹیکسی والے کو تیار کرہی لیا۔
صادقہ ایک گھنٹے میں تیار ہوگئی اور رات ہوتے ہوتے حامدہ اور فراز کو ساتھ لیے ٹیکسی میں بیٹھ کر نکل بھی گئی۔
فلیٹ میں کھلی سانسوں کے لیے جگہ فارغ ہوتے ہی اکرم میاں نے سکون کی سینکڑوں سانسیں ایک ساتھ لے ڈالیں۔ رات میں انھیں اپنی ٹانگیں تھوڑی زیاہ پھیلانے کی جگہ بھی مل گئی تھی۔
رات کا ایک بجا ہوگا کہ اچانک سلمیٰ کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے دیکھا تو موبائل کے اسکرین پر صادقہ کا نمبر جگمگارہا تھا۔ وہ فون اکرم میاں کے پاس لے آئی اور انھیں جگاکر بتایا کہ صادقہ کا فون ہے۔ اکرم میاں کوچونکہ کئی دنوں میں پہلی مرتبہ گہری نیند آئی تھی اس لیے جاگنے میں تھوڑ ا وقت لگا۔ کچھ دیر آنکھیں ملتے رہے اور پھر بولے،’ایسا کرو! فون سوئچ آف کردو۔ ابھی کال رسیو کرکے کوئی خطرہ مول لینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ پہلے وہ گھر پہنچ جائے پھر اس سے بات کریں گے۔‘
دونوں میاں بیوی نے فوراً اپنے اپنے سیل فون سوئچ آف کیے اور سوگئے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اپنے بچوں کے سیل فون سوئچ آف کرنا نہیں بھولے تھے۔
٭٭٭
تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر
خان حسنین عاقب صاحب تحقیق و تنقید کے میدان میں جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔ اردو، فارسی، مراٹھی اور انگریزی زبانوں میں خاصی پکڑ رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ ادارۂ بال بھارتی کی اردو اور فارسی دونوں لسانی کمیٹیوں کے فعال اور متحرک رکن ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے یہ ان کا پہلا افسانہ ہے۔ ویسے موصوف نے تیسرے پارے کا انگریزی زبان میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے اور یہ کسی کارنامے سے کم نہیں! آپ کی نظموں میں اکثر افسانوی رنگ بخوبی نظر آتے ہیں۔ آپ ماہر اقبالیات، نفسیات اور ماہر تعلیم بھی۔ ان تمام خوبیاں آپ نظموں میں بخوبی نظر آتی ہیں۔
افسانہ نگاروں کے کمبے میں اگر زبان و بیان کا کھلاڑی داخل ہوں تو مجھے اس میں نفع ہی نفع نظر آتا ہے۔ شاہکار افسانوں کو چھوڑ کر باقی سارے ہی افسانے ہر قاری کی پیاس یکساں طور پر مٹانے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔ ہر کسی کی نظر اور نظریہ مختلف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی نظروں کے زاویے بھی مختلف ہوتے ہیں اس لیے افسانے میں مختلف رنگ نظر آ سکتے ہیں اور کبھی کبھی تو کوئی رنگ نظر ہی نہیں آتا۔ چونکہ یہ موصوف کے ابتدائی افسانوں میں سے ایک ہے اس لیے بے شک افسانے کے تانے بانے میں کچھ کمیاں ضرور رہ گئی ہے۔ جس کی نشاندھی گروپ کے سینئر ممبران اور اساتذہ فرداً فرداً کر رہے ہیں۔
افسانے کی ایک کمی جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ کہ کہانی کے تمام کردار گونگے ہیں۔ صرف آخر میں اکرم قریشی نیند سے بیدار ہونے پر کچھ کہتا ہے اس کے علاؤہ کسی بھی کردار نے کہانی میں کچھ نہیں کہا۔ ان کرداروں کے تعلق سے جو بھی تاثرات پیش کیے گئے وہ ہمیں افسانہ نگار نے ہی بتایا ہے۔ اب چونکہ افسانہ نگار کو شروع سے ہی کہانی کا انجام پتہ تھا تو سوال یہ ہے کہ وہ جو ہمیں بتا رہے ہیں کتنی دیانت داری سے بتا رہے ہیں؟
خیر کہانی ممبئی کی تھی اس لیے یہ کہانی کہی جا سکتی ہے۔ لاک ڈاؤن کے پس منظر پر لکھنے کی ابھی تو شروعات ہے۔ ممبئی جیسے شہروں میں بے شمار کہانیاں رینگ رہی ہیں۔ ممبئی میں مقیم افسانہ نگار خاموش ہیں اور یہ خاموشی شاید کسی طوفان کا اشارہ دے رہی ہے۔ کہانیوں کا ابھی سیلاب آنا باقی ہے۔ اگر میں ہوتا تو کامٹی جیسے شہر میں بیٹھ کر ممبئی کے پس منظر پر کہانی لکھنے سے پرہیز کرتا۔ کہانی میں جو درد، تکلیف اور انجام ہے وہ سنا سنایا ہے۔ لیکن ممبئی کی اس کہانی پر کچھ سوال بھی ہے کہ اکرم قریشی کا مکان بڑا ہوتا، گھر میں چار پانچ کمرے ہوتے تو کیا وہ اس وقت بھی ایسی ہی حرکت کرتا نظر آتا؟ کہانی میں اکرم قریشی فطرتاً کمینا ہے یا حالات کے سبب اس نے یہ حرکت کی اس کی نشاندھی صاف صاف نہیں ہے۔ اسی طرح کہانی میں ویلن اکرم قریشی ہے یا حالات یہ بھی صاف نہیں ہے۔ تین دن کی مہمان نوازی پر ایمان رکھنے والا اکرم قریشی بغیر لاک ڈاؤن کے اپنے مہمان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا یہ اسی وقت سمجھ آتا کہ جب کہانی کے کردار کچھ کہتے۔ اسی طرح سلمی کا کردار بھی عجیب ہے۔۔۔ وہ بھولی ہے، بیوقوف ہے۔۔۔ اکرم قریشی سے درتی ہے؟ آخر اس نے کیوں گھر کے سارے موبائیل فون بند کرنے میں اکرم قریشی کی مددگار بنی رہیں؟
میری رائے ہے کہ اگر کہانی اس جملے پر ختم ہوتی تو شاید قاری پہلے سے زیادہ اور دیر تک سوچتا،
لیکن وہ اپنے بچوں کے سیل فون بند کرنا بھول گئے۔
خیر! بیانیہ خوب ہے، کہانی چھوٹی (کچھ کا کہنا ہے کہ ادھوری) ہونے کے سبب قاری کہانی سے بندھا رہتا ہے۔ زبان و بیان کے کیا کہنے وہ بھی خوب ہے۔ خان حسنین عاقب صاحب کا افسانہ نگری میں سواگت ہے۔ امید ہے آئندہ خان حسنین عاقب صاحب کی طرف سے اس سے بھی بہتر افسانے پڑھنے اور سننے کو ملیں گے۔
٭٭٭


0 Comments