زندگی الرٹ
ایم مبین
تعارف:
اگلا افسانہ ’’نئی صدی کا عذاب‘‘،’’ٹوٹی چھت کا مکان‘‘،’’لمس ‘‘ اور ’’زندگی الرٹ‘‘ کے مصنف ایم مبین صاحب کا ہے جن کا تعلق بھیونڈی سے ہے۔ وہ ایک بینک میں سی ای او کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ موصوف 1973 سے اردو ہندی کہ تمام اہم رسائل اردو ہندی میں افسانہ۔ ناول۔ ڈراما اورادبِ اطفال کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ان کی تقریباً ساٹھ کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔
ایم مبین صاحب کی ہندی کتاب ’’یاتنا کا ایک دن‘‘ قومی ایوارڈ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جی کے ہاتھوں تفویض کیا گیا تھا۔ ان کے ہندی ناول ’’ریوڑ ‘‘ پر ریاستی اکیڈمی کا منشی پریم چند ایوارڈ اور مہاراشٹر اردو اکادمی سے ان کی پانچ کتابوں پر نیز یو پی اکادمی سے دو کتابوں پر ایوارڈ تفویض کی جا چکا ہے۔
٭٭٭
آفس پہنچاتوچپراسی نے پیغام دیاکہ باس نے اسے بلایا ہے۔
مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔اس لیے باس کی طلبی متوقع تھی۔ اس نے خود کوباس کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار کرلیاتھا۔ اس لیے وہ بڑے اطمینان سے باس کے کیبن کی طرف چل دیا۔ باس کے کیبن کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دستک دی تو اندر سے باس کی آواز سنائی دی۔۔۔
’’ آجاؤ! انزل میں تمھاراہی انتظار کررہاہوں۔‘‘
’’ تھینک یو سر!‘‘ کہتا ہوا وہ اندر آیا۔
’’بیٹھو۔۔۔‘‘ باس نے اسے بیٹھنے کا حکم دیاتووہ باس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’ مجھے بڑی خوشی ہے کہ گذشتہ ماہ تم کو جو ٹارگیٹ دیاگیاتھا تم نے وہ ٹارگیٹ پوراکرلیا۔‘‘
’’جی سر۔۔۔‘‘
’’ مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ اس ٹارگیٹ کو پورا کرنے کے لیے تم نے دن رات محنت کی ہے۔ سویرے آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک کام کیا ہے۔ تب ہی یہ ٹارگیٹ پورا ہوسکا ہے۔‘‘
’’جی سر! اس بار مجھے سخت محنت کرنی پڑی۔ سیل کا معاملہ ہے۔ کمپٹیشن بہت بڑھ گیا ہے۔ دوسری کمپنیاں ہم سے آسان شرائط اور کم قیمت پر مال فروخت کرنے کو تیار ہیں۔ پھر سیل قائم رہے ایسا ضروری نہیں ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’آئی نو اِٹ‘‘ باس بولا۔۔۔’’ اس لیے تمھیں جو Incentive دینے کا وعدہ کیا گیاتھا میں اس میں ایک فی صد اضافہ کی سفارش کررہا ہوں۔‘‘
’’ تھینک یو سر‘‘۔۔۔اس کے چہرے پر خوشی کی چمک لہرا گئی۔
’’۔۔۔اور اس بار میں تمھارے ٹارگیٹ میں تھوڑا سا اضافہ کررہا ہوں۔‘‘ جب باس نے کہا تو اس کے چہرے پر مردنی چھاگئی۔
’’ دیکھو اس کی وجہ ہے۔مجھے گذشتہ ماہ جو ٹارگیٹ دیاگیاتھاوہ پورا نہیں ہوسکاکیونکہ تمھارے جیسے کچھ لوگوں نے محنت کرکے ٹارگیٹ تو پوراکیالیکن کئی لوگ ٹارگیٹ پورانہیں کرسکے۔جس کی وجہ سے مجھے دیا گیا ٹارگیٹ پورا نہیں ہوسکا۔‘‘
وہ کچھ کہتا اس سے قبل ہی باس کہہ اٹھا۔۔۔’’میں سمجھ رہاہوں، تم یہ کہنا چاہ رہے ہوکہ جنھوں نے ٹارگیٹ پورا نہیں کیا آپ ان کا ٹارگیٹ بھی ہم پر لاد رہے ہیں،انزل۔۔۔ یہ فیلڈمحنت کا میدان ہے۔ اس میدان میں جو بھی جتنی زیادہ محنت کرے گا اتنا کمائے گا۔ ابھی تمھاری عمر محنت کرنے کی ہے۔ ۵۔۱۰ ؍ سال اس طرح محنت کرلوگے تو زندگی بھر آرام سے کھاؤ گے اور میں تمھیں اس بڑھے ہوئے ٹارگیٹ کو پوراکرنے پر اس کا معاوضہ بھی دوں گا۔اگر تم اس ماہ بھی ٹارگیٹ پورا کرلیتے ہو تو میں تمھیں Incentive ۲؍فیصد زائد دینے کی سفارش کروں گا۔‘‘
باس نے دانہ ڈالاتھا۔وہ جال میں تو پھنسا ہی تھا، اس زائد دانہ کا مطلب تھا وہ جال سے نکلنے کا خیال دل سے نکال دے اور دانہ چگتارہے۔
’’ ٹھیک ہے سر۔۔۔‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’شاباش! مجھے تم سے یہی امید تھی۔میں تمھارے جیسے محنتی نوجوانوں کی قدر کرتا ہوں۔جاؤ ابھی سے اپنے کام میں لگ جاؤ۔‘‘ باس نے کہا تو وہ باس سے ہاتھ ملاکر باس کے کیبن سے باہر آیااور اپنا بیگ کاندھے پر لٹکاکر آفس سے نکلا۔
ابھی اس نے موٹر سائیکل اسٹارٹ بھی نہیں کی تھی کہ موبائل پر میسج کی رنگ ٹون سنائی دی۔ وہ اسی کا منتظرتھا۔ اس نے موبائل نکالااور میسج پڑھنے لگا۔
\" Your A/C cr۔ by salary Rs۔ 22،836/۔\"
تنخواہ جمع ہوگئی ہے یہ دیکھ کر اس نے اطمینان کی سانس لی۔بہت مشکل کام تھا۔کمپنی کے مال کو فروخت کرناتھا۔ آرڈر حاصل کرناتھااورہرماہ دیاجانے والا ٹارگیٹ پوراکرناضروری تھا تاکہ تنخواہ میں کوئی تخفیف نہ ہو۔ ٹارگیٹ پورا نہ کرنے کی صورت میں اگریمنٹ کے مطابق تنخواہ میں تخفیف بھی ہوسکتی تھی۔اس کے لیے اسے صبح آٹھ سے کبھی کبھی رات کے ۱۲؍بجے تک کام کرنا پڑتا تھا۔
پرانے گاہکوں کے پاس جاکر ان کاآرڈر لینا،نئے گاہکوں کی کھوج کرنا، نئے گاہکوں کوآرڈر دینے کے لیے راضی کرنا، اس کے لیے گاہکوں سے رابطہ، ان کو اپنے مال کی خوبیاں بتانے کے لیے بار بار رابطہ قائم کرنا۔۔۔جیسے کئی کام تھے۔اس کے لیے اسے دن بھر پورے علاقہ اور کبھی کبھی پورے ضلع میں بھٹکنا پڑتا تھا۔پوراضلع اس کے تحت تھا۔اس لیے کب کس جگہ جانا پڑے اسے خود پتہ نہیں ہوتاتھا۔وہ سویرے گھر سے نکلتاتھا کہ آج اِن اِن لوگوں سے ملنا ہے لیکن کبھی کبھی اس کے سارے منصوبہ خاک میں مل جاتے تھے۔آفس آنے پر باس اسے کسی نئی جگہ بھیج دیتاتھاتو کبھی کسی پرانے گاہک کافون آجاتاتھا۔ کبھی کوئی نیا گاہک اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کرتا تھا۔
مہینہ بھر ٹارگیٹ کا تناؤ ذہن پر چھایا رہتا تھا۔ٹارگیٹ پورا ہونے پر یہ تناؤ دور ہوجاتاتھااور ایک انجانی خوشی بھی ملتی تھی کہ اس ماہ تنخواہ میں کوئی کٹوتی نہیں ہوگی اور کوئی مسئلہ اٹھ کھڑانہیں ہوجاتا۔۔۔۔سوچتا وہ سڑک پر بڑھ رہاتھاکہ ایک بار پھر اسے موبائل پر میسج کا رنگ ٹون سنائی دیا۔کچھ سوچ کر اس نے موٹر سائیکل روکی اورموبائل کا میسج پڑھنے لگا۔
\"Housing loan installment Rs۔ 9350 deducted from your A/C\"
اس نے ایک گہری سانس لی۔گھر خریدنے کے لیے اس نے جو ہاؤسنگ لون لیاتھااس کا ہفتہ بھی کٹ گیا۔یہ شاید ۱۳؍واں ہفتہ ہوگا۔ اسے اس طرح کے ہفتہ آئندہ ۲۰؍سالوں تک ادا کرنے تھے۔
کمپنی میں سیل آفیسر کے عہدے پر اس کا تقررپانچ سال قبل ہی ہوگیاتھا۔ابھی سروس کو دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ گھر والوں کو شادی کی فکر ستانے لگی۔ گھر والوں کا تو یہ فرض تھا، اصل میں اس نے خود اس کا انتظام کرلیاتھا۔ایک لڑکی سے اسے عشق ہوگیاتھا۔ وہ بھی اس کی طرح ایک کمپنی میں کام کرتی تھی۔اس نے گھر والوں سے اس بات کو چھپاکر رکھاتھا کیونکہ اسے پتہ تھا گھر والے اس رشتہ کے لیے راضی نہیں ہوں گے کیونکہ لڑکی کاتعلق دوسرے مذہب سے تھا۔
عشق کا معاملہ تھا۔لڑکی تعلیم یافتہ اور سمجھدار تھی۔لڑکی کے گھر والے بھی اس رشتہ کے لیے تیار نہیں تھے۔یہ طے کیا گیا تھا کہ لڑکی اپنے گھر والوں سے بغاوت کردے اور وہ اپنے گھر والوں کو راضی کرلے۔
اس نے گھر والوں کو اس بات کے لیے راضی کرلیا کہ اگر لڑکی مسلمان ہوگئی تو وہ اسے قبول کرلیں گے۔لڑکی نے اسلام قبول کرلیا۔لڑکی کے گھر والوں نے ہمیشہ کے لیے اس سے رابطہ توڑ لیا۔ انھوں نے نکاح کرلیا۔اس کے گھر والوں نے سیما کو قبول کرلیا۔
دوسال بعد دونوں نے اپنا گھر لینے کا سوچا۔گھر مل گیا۔تما م جمع پونجی ادا کرنے کے بعد بھی قرض لینے کی نوبت آئی۔ اس لیے ہاؤسنگ لون لیاتھا۔ کمپنی کی سفارش پر اسے آسانی سے قرض مل گیا۔ اب وہ اپنے نئے گھر میں رہ رہے تھے اور قرض کی قسطیں ادا ہورہی تھیں۔
وہ اس وقت ایک گاہک کے پاس جارہاتھا۔۔۔
اس گاہک سے اسے بڑا آرڈر ملنے کی امید تھی۔ گذشتہ سال وہ تقریباً دس بار اس سے ملا تھا اور اس کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیے۔اس پر یہ باور کرادیاتھا کہ ان کی کمپنی کا مال خریدنااس کے لیے فائدہ مند ہے۔اس نے دانستہ اس آرڈرکو گذشتہ ماہ نہیں لیا تھاکیونکہ اس کا ٹارگیٹ پوراہوچکاتھا۔ وہ اس ماہ کے ٹارگیٹ کا آغاز اس آرڈر کے ساتھ کرناچاہتاتھا۔
۔۔۔اسی وقت مسیج کی رنگ ٹون سنائی دی۔کچھ سوچتے ہوئے اس نے موٹر سائیکل روکی اور مسیج پڑھنے لگا۔
\"Your Debit Card Bill 7618 deducted from your A/C\"
اس نے میسج بند کردیا۔اپنے ڈیبٹ کارڈ سے دوماہ قبل اس نے جو مختلف چیزیں خریدی تھیں یا بل ادا کیے تھے، یہ اس کا بل تھا۔ اس کو اس کے ڈیبٹ کارڈ پر ۵۱؍دنوں کی چھوٹ ملتی تھی۔ ہر خریدی ہوئی چیز کا بل اسے ۵۱؍ دنوں کے بعد ادا کرنا ہوتاتھا۔سامان زیادہ تر ضرورت زندگی کا ہی ہوتا تھا۔ کپڑے، کرانہ سامان، پٹرول کا بل وغیرہ۔
اب ان کے بنا تو زندگی نہیں گزر سکتی تھی۔ اس لیے یہ بھی اس کے معمولات میں تھا۔ اس نے رقم دیکھ کر سرکوجھٹک دیا۔ جس گاہک سے اسے ملناتھا وہ مل گیااور اس کی امید کے مطابق سچ مچ اس نے اسے ایک بڑا آرڈر بھی دے دیا۔اس آرڈر کو پاکر وہ بہت خوش تھا۔ مہینے کی شروعات اچھی رہی۔ اس نے ۲۵ ؍ فی صدی ٹارگیٹ پورا کرلیا ہے۔باس بھی اس آرڈر کو دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔اس نے میسج کے ذریعے کمپنی کو آرڈر روانہ کرتے ہوئے سوچا۔ابھی اس نے میسج روانہ بھی نہیں کیا تھا کہ ایک نئے میسج کی آمد کی رنگ ٹون سنائی دی۔اس نے میسج پڑھا۔۔۔
\"Your vehicle loan installment 4370/۔ deducted from your A/C\"
اس نے جو موٹر سائیکل لائی تھی اس کے قرض کا ہفتہ بھی اس کے اکاؤنٹ سے ادا ہوتاتھا۔ اسے موٹر سائیکل خریدنے کے لیے لیا گیا قرض دس مہینوں میں اداکرناتھااوروہ شاید اس قرض کی ۱۰؍ویں قسط تھی۔
سورج چڑھ آیا تھا۔ اس کی تمازت بھی بڑھتی جارہی تھی۔ گرمی کی وجہ سے اس کا جسم پسینہ سے شرابورہوگیا تھا۔ اس کے ماتھے سے پسینہ کی دھار بہہ رہی تھی۔تارکول کی چکنی گر م سڑک پر اس کی موٹر سائیکل فراٹے بھر رہی تھی۔
اسے اس وقت ۷۰؍ کلومیٹردورایک گاہک سے ملنے جاناتھا۔ اس گاہک کو رام کرنے میں وہ گذشتہ دومہینوں سے لگاتھا۔۷۰؍ کلومیٹرکاسفرطے کرکے وہ پانچ چھ بار اس کے پاس جا چکا تھالیکن وہ گاہک ٹس سے مس نہیں ہوتاتھا۔
لیکن اسے اس کی امید تھی کہ گاہک راضی ہوجائے گا اور اس سے اسے ایک اچھا آرڈر مل جائے گاکیونکہ کل جب اس نے اس گاہک سے رابطہ قائم کیاتھاتو اس گاہک نے اسے مثبت انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کل آجائے۔ بیٹھ کر بات کرلیں گے۔اس لیے آج اس گاہک سے ملاقات ضروری تھی۔
جب وہ اس گاہک کے پاس پہنچاتواسے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ گاہک اس کا انتظار کررہاتھا۔ ابھی اس نے بات چیت کاسلسلہ شروع بھی نہیں کیاتا کہ میسج کی آمد کی رنگ ٹون سنائی دی۔ اس نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے موبائل جیب سے نکالااورپیغام پڑھنے لگا۔۔۔
\"Your LIC installment Rs۔ 2528/۔ Ded۔ from the A/C۔\"
سروس جوائن کرنے کے بعد اس نے اپنی بیمہ کی ایک پالیسی اتروائی تھی۔ وہ خود پالیسی کیا لیتا، ایک آئی سی ایجنٹ اس کے ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ گیاتھااوراسے اتنا مجبورکردیاتھاکہ اس کو پالیسی اتروانی پڑی تھی۔اسی پالیسی کے ہفتہ کی قسط کی طور پر اسے ہر ماہ ۲۵۴۸؍روپیہ ادا کرنے ہوتے تھے جو اس کے اکاؤنٹ سے ادا ہوتے تھے۔
وہ گذشتہ پانچ سالوں سے بیمہ کی قسطیں اداکررہاتھا۔اداکیاکررہاتھا، اس کے اکاؤنٹ سے وہ قسطیں اداہوجاتی تھیں۔ اس لیے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ پانچ سال ہوگئے تھے۔آئندہ بیس سالوں تک اسے اور یہ قسطیں باقاعدگی سے ادا کرنی تھیں۔
ایل آئی سی کی بیمہ قسط کی ادائیگی معمولات میں سے ایک تھی۔ اس لیے اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔اس سیر سے واپس ہوا تو وہ خوش تو نہیں تھا مگر اسے ایک اطمینان ضرورتھا کیونکہ اس گاہک نے انکارنہیں کیاتھا۔اسے دودن کے بعد بلایاتھااورآرڈر دینے کا وعدہ کیاتھا۔
اس کے تمام شک وشبہات دورکرنے میں وہ کامیاب رہاتھا۔ اسے امید تھی کہ اسے دوروزکے بعد اس سے ایک اچھا آرڈر مل جائے گا۔بھلے اسے دودن بعد پھر سے اس کے پاس آنا پڑے لیکن اسے مایوس ہوکر جانا نہیں پڑے گا۔
اس کا مقصد حل ہوگیا تھا۔
اسی وقت ایک نئے میسج کی آمد کی رنگ ٹون سنائی دی۔اس بار اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے اپنی موٹر سائیکل روکی اور موبائل پر میسج پڑھنے لگا۔۔۔
\"Cheqye No۔ 12632 Rs۔ 4500/۔ Rtn۔\"
یہ پڑھتے ہی اس نے اپنا سرپکڑلیا۔۔۔
اُف !۔۔۔ راجیش کا چیک ریٹرن ہوگیا؟ اکاؤنٹ میں بیلنس نہیں ہے۔۔۔
اس نے راجیش کو چیک دیتے ہوئے کہاتھاکہ ایک تاریخ کو اس کی تنخواہ ہوجائے گی۔ وہ چیک ڈال دینا۔ چیک پاس ہوجائے گا۔
اس نے ایک ضرورت کے تحت راجیش سے ۴۵۰۰؍ روپیے ادھار لیے تھے اور ایک تاریخ کو لوٹانے کا وعدہ کرتے ہوئے ایک تاریخ کا چیک دے دیا تھا۔
راجیش نے اس کے کہنے کے مطابق اس تاریخ کو بینک میں چیک جمع کر دیا ہوگا۔ آج اس کے اکاؤنٹ میں پاس ہونے کے لیے آیا اور رقم اکاؤنٹ میں نہ ہونے کی وجہ سے واپس چلاگیا۔
اسے اندازہ تھا کہ اگر راجیش ایک یا دو تاریخ کو بھی چیک اپنے اکاؤنٹ میں جمع کردے تو چیک پاس ہوجائے گا کیونکہ اس کی تنخواہ تو ایک تاریخ کو ہی ہوجاتی ہے اور تما م ضروری رقوم کی ادائیگی کے بعد بھی اتنی رقم اکاؤنٹ میں ہوتی ہے کہ ۴۵۰۰؍ روپیے کا ایک چیک پاس ہوجائے۔
لیکن اسے علم نہیں تھا کہ بینک اس کے ڈیبٹ کارڈ کے تما م بلوں کو بھی آج ہی وصول کرلے گا۔ راجیش نے اسے وقت پر پیسہ دیاتھا۔اس نے وعدہ کیاتھا کہ وہ وقت پر لوٹا دے گا۔وہ لوٹا نہیں سکا، اسے شرمندگی محسو س ہورہی تھی۔
وہ نادم سا گھر جارہاتھا۔ اسی وقت بیوی کا فون آیا۔۔۔
’’ آج ایک تاریخ ہے۔۔۔تمھاری تنخواہ کا دن۔۔۔کیوں نہ ہم آج رات کا کھانا کسی ہوٹل میں کھائیں۔ گھر والوں کے لیے بھی پارسل لے آئیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔میں تمھیں لینے کے لیے آفس آرہاہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا لیکن جواب دے کر وہ کسی سوچ میں پڑگیاتھا۔جیب میں صرف ۳۰۰؍ روپیے تھے۔ تین سو روپیے میں دونوں کے کھانے کا بل اور پارسل کا بل اداہوگا؟۔۔۔ پھر یہ سوچ کر اس نے سر جھٹک دیا کہ سیما کے پاس تو پیسے ہوں گے۔
ایک اور میسج وارد ہوا۔۔۔
\"Cheque Rtd۔ charges Rs۔ 450/۔ Deb۔ from your A/C
There is Deb۔ Balance of Rs۔ 135/۔ in your A/C\"
تنخواہ کادن اوراکاؤنٹ میں ۱۳۵؍ روپیے ڈیبٹ۔۔۔واہ رے زندگی۔۔۔!!
میسج پڑھ کر اس نے ٹھنڈی سانس لی۔
٭٭٭
(واٹس ایپ گروپ بزمِ افسانہ میں برائے تنقید و تفہیم یہ افسانہ یکم مئی 2020ء کو پیش کیا گیا تھا)
تبصرہ و تجزیہ
ریحان کوثر
آج یومِ مزدور ہے۔ یہ اتفاق ہے یا کچھ اور کہ آج کے دن اس افسانے کو پیش کیا گیا ہے۔ حقیقتاً یہ ایک مزدور کی اس روز کی کہانی ہے جس روز اسے مزدوری حاصل ہوئی ہے۔ بڑی عجیب بات یہ ہے شاید اس کا پسینہ ابھی سوکھا بھی نہیں اور اس کی ساری مزدوری مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتی جا رہی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پل پل اسے اس کی اطلاع بھی مل رہی ہے۔ کہانی میں اس مزدور کو کسی ریس کے گھوڑے کی مانند بتایا گیا ہے۔ ہر ایک موبائل میسج اس کی ذمے داریوں کی پشت پر کسی چابک کی طرح پڑتی جا رہی ہے لیکن وہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ نہ رک رہا ہے نہ تھک رہا ہے۔ شاید تھک کر بیٹھے تو مر ہی جائے۔ لیکن اس کا پچھلا مہینہ ایسا ہی تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اگلا بھی بس ایسا ہی ہوگا۔
یہ انزل نامی ایک ایسے مزدور کی کہانی ہے جسے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ مزدور ہی نہیں مانتا۔ جب وہ بائیک پر سوار گھر سے نکلتا ہے تو سوٹ بوٹ میں نظر آتا ہے۔ اچھی سی ہلکے رنگوں کی سرٹ اِن کی ہوئی ہوتی ہے اور گلے میں کبھی کبھی ٹائی بھی لٹک رہی ہوتی ہے۔ مگر اس مزدور کا درد اکثر ان کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ جیسے گیزیٹ میں قید ہوتا ہے۔ مہینے کے آخری چار پانچ دن کسی عذاب کی طرح گزرتا ہے۔ ٹارگیٹ کی تلوار ہر وقت ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ یہ وہ مزدور ہے جو ہر مہینے ٹارگیٹ نامی کنواں کھودتا ہے اور اپنے سینئر کے حوالے کر دیتا ہے۔ سینئر مزید گہرا کنواں کھودنے کا فرمان سناتا ہے کیوں کہ وہ بھی اس سے بڑے والے مزدور ہوتے ہیں۔ انھیں بھی ہر مہینے ٹارگیٹ کا پہاڑ توڑنا ہوتا ہے۔
دراصل ہم نے مزدوروں کو دیکھنے کا ایک الگ ہی چشمہ لگا رکھا ہے جس کے سبب ہم انزل جیسوں کو دیکھ ہی نہیں پاتے۔ جبکہ ہمارے اطراف انزل جیسے ان گنت افراد اپنا درد سمیٹے ظاہری مسکراہٹ لیے اپنا اپنا آرڈر بک کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
اب یہ روایتی مزدور کی کہانی نہیں اس لیے اس کا اختتام بھی روایتی نہیں۔۔۔ یہ ہر ماہ کی کہانی ہے اور مجھے ایم مبین صاحب کا اختتام ٹھیک لگا۔ لیکن انزل کی بیوی کا کردار کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔ بہر حال تبصرے کے دوران کسی نے کہا کہ ایم مبین صاحب کا قلم ابھی جوان ہے یہ افسانہ اس بات کا ثبوت ہے۔ فی الحال معاشرے میں انزل جیسے بے شمار کردار ہمارے اطراف ہے یہ افسانہ اس کی بھر پور ترجمانی کر رہا ہے۔ کہانی میں ایک اہم کردار انزل کے موبائل کا بھی ہے جس کا بخوبی استعمال ایم مبین صاحب نے کیا ہے۔ ایک اچھے افسانے کے لیے ایم مبین صاحب کو مبارکباد۔ لیکن مجھے مبین صاحب کی طرف سے اس سے بھی بہتر کی امید تھی جس کا مجھے حق ہے کیونکہ کے میں نے بھی انھیں ’خوب‘ پڑھا ہے۔
٭٭٭
0 Comments