شخصیت: ریاض احمد امروہوی
ریحان کوثر
ہندوستانی آئین کے مطابق کسی بھی تعلیمی، سیاسی، سماجی، مذہبی یا تہذیبی اداروں کو ہندوستان کی سرزمین پر شروع کرنے، انھیں منظم طریقے سے چلانے اور سرکاری اسکیم حاصل کرنے کے لیے سوسائٹی یا ٹرسٹ رجسٹریشن کروانا لازمی ہوتا ہے۔ آج ہماری اسی تنظیم ودربھ مائنورٹی ملٹی پرپس رورل ڈیولپمنٹ ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام کئی تعلیمی اور دیگر ادارے رواں ہیں۔ جس میں ربانی آئی ٹی آئی و جونیئر کالج، ربانی وی ٹی پی، ماہنامہ الفاظ ہند، ہندی ماہنامہ مدھیہ بھارت ٹائمز، الفاظ پبلی کیشن اور اب ہماری ایک نئی شروعات یعنی ڈاکٹر مدحت الاختر پبلک لائبریری شامل ہیں۔
ریاض احمدامروہی اور میں نے کامٹی میں ایک تکنیکی ادارہ شروع کرنے کا عزم کیا تب معلوم ہوا کہ ہمیں چیریٹی کمیشنر کے ذریعے سوسائٹی یا ٹرسٹ رجسٹریشن کروانا ہوگا۔ اس وقت ہمارے پاس اس تعلق سے نہ تو کسی قسم کی کوئی معلومات تھیں اور نہ ہی اتنی رقم کہ وکیل کی فیس دے سکیں۔ ہمارے پاس تھا تو صرف عزم، حوصلہ اور چند نیک مقاصد!
اس دوران ہماری ملاقات ہائی کورٹ کے سینئر وکیل جناب اتل مودی صاحب سے ہوئی۔ ویسے تو مودی صاحب کٹر آر ایس ایس کے رکن ہیں لیکن ہمارے عزم اور ہائی کورٹ کے ایک اور سینئر وکیل جناب رفیق آقبانی صاحب کی سفارش کی وجہ سے ہمارے سوسائٹی کے رجسٹریشن کی ساری ذمہ داری مودی صاحب نے لے لیں۔ کچھ ملاقات کے بعد مودی صاحب نے ہماری سوسائٹی کے اغراض و مقاصد ترتیب دی اور ایک شاندار بائلاز تیار کیا۔ شروعات میں ان کی فیس کا کچھ حصہ ہم لوگوں نے جیسے تیسے ادا کر دیا۔ چیریٹی کمیشنر کے یہاں دو تاریخوں کے بعد آخری تاریخ تھی۔ اس آخری تاریخ یا پیشی میں رجسٹریشن کی کاپی ملنے والی تھی۔ لیکن فیس کا باقی حصہ جو پانچ ہزار روپے تھا، ہم لوگوں کے پاس نہیں تھا۔ اس وقت یعنی ٢٠٠٦ء میں فلیپ والے موبائیل کا کافی چلن تھا۔ میرے پاس سادہ موبائیل تھا لیکن ریاض احمدامروہی صاحب کے پاس ایک خوبصورت، قیمتی فلیپ والا موبائیل تھا۔ جو انھیں کافی عزیز بھی تھا۔
جیسے جیسے پیشی کی تاریخ قریب آرہی تھی ہمارے ماتھے کی شکن گہری ہوتی جا رہی تھی۔ تاریخ کے قبل ایک رات ریاض صاحب میرے گھر حاضر ہوئے اور مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ پانچ ہزار کا انتظام ہو گیا ہے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے ریاض سے کہا کہ مودی صاحب کو موبائل کے ذریعے کل کی ان کی مصروفیات اور ان سے ملاقات کے تعلق سے بات کر لی جائے۔ میں نے انھیں فون لگانے کے لیے کہا تو انھوں نے بار بار مجھ سے ہی فون لگانے کی ضد کیں۔ اکثرجب کسی اہم اور بڑے شخص کو فون لگانے کی بات ہوتی تو ہم دونوں ایک دوسرے پر یہ ذمہ داریاں ڈالتے تھے۔ مجھے لگا شاید ریاض صاحب یہ ذمہ داری مجھ پر ڈھکیل رہے ہیں۔ لیکن کافی اصرار اور تکرار کے بعد معلوم ہوا کہ صاحب نے اپنا قیمتی اور عزیز موبائل چھیالیس سو روپےمیں بیچ دیا ہے۔ سچ کہوں تو اس وقت میری آنکھیں بھیگ گئیں تھیں۔ یوں تو شہر میں سیکڑوں سوسائٹی بنی ہوگی لیکن اس طرح کی قربانی اور ایثار کے بعد بنی ہو مجھے نہیں لگتا۔
دراصل ریاض صاحب کو بہت کم لوگ نزدیک سے جان پاتے ہیں اور جس نے انھیں ایک بار جان لیا اور اچھی طرح پہچان لیا تو وہ ان پر جان نچھاور کر دیتے ہیں۔ ان میں بہت سی فطری صلاحیتیں موجود ہیں۔ جس کے سبب ان کے فیصلے سخت نظر آتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے بعد جب ان فیصلوں کے راحت بخش نتائج سامنے آتے ہیں، توان کی دور اندیشی اور دانش مندی کا پتہ چلتا ہے۔
بڑے پاک طینت بڑے صاف باطن
ریاضؔ آپ کو کچھ ہمیں جانتے ہیں
ودربھ مائنورٹی ملٹی پرپس رورل ڈیولپمنٹ ایجوکیشنل سوسائٹی کے قیام کے فوراً بعد نویں، تابارہویں جماعت کے طلبہ و طالبات کے لیے ایک سیمینار ”گائیڈنس میلا“23/ اپریل 2007ء بروز اتوار بمقام میمن جماعت خانہ، اسماعیل پورہ میں منعقد ہوا۔ جس میں شہر کی تقریباً تمام اسکولوں کے اساتذہ، طلبہ و طالبات نے حصہ لیا۔
اس پروگرام کے کامیاب انعقاد کے بعد ۲۰/اپریل ۲۰۰۸ء کیریئر گائیڈنس کا دوسرا سیمینار"گائیڈنس میلا" کا انعقاد بنکر کالونی میں واقع حجیانی خدیجہ بائی گرلس ہائی اسکول کے میدان میں کیا گیا۔ اسی روز رات میں ایک اور سلسلہ"مستی کی پاٹھ شالا" کا آغاز بھی ہوا۔ مستی کی پاٹھ شالا کے عنوان سے انٹر اسکول ڈراموں کے مقابلے کا سلسلہ کامٹی میں پہلی بار شروع کیا گیا۔ اس انٹر اسکول ڈراموں کے مقابلوں میں شہر کی مختلف اسکولوں نے حصہ لیا۔
گائیڈنس میلا کا تیسرا سیمینار پربھات ہاسپٹل کے سامنے، پربھات بلڈنگ میں منعقد کیا گیا۔ اسی طرح ہر سال ان پروگراموں کا انعقاد مسلسل کیا گیا۔
مستی کی پاٹھ شالا تقریب ریاض احمدامروہی صاحب کے مکان کے سامنے مسلسل دو تین سالوں تک منعقد ہوتی رہی۔ چند ہی سالوں میں ریاض صاحب کی قیادت میں سوسائٹی نے متعدد پروگرام منعقد کیے۔
ریاض صاحب کی صدارت میں سوسائٹی دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی رہی۔ ریاض احمدامروہی صاحب کی قیادت نے سوسائٹی کے تمام اراکین کو ہمیشہ متحرک رہنے کا سبق دیا۔ ان کی مضبوط قیادت کی وجہ سے ہماری سوسائٹی آج بھی اتنی ہی متحرک اور سرگرم نظر آتی ہے۔
سال ۲۰۰۸ء سے ہی شہر کے اردو میڈیم اسکولوں کے اساتذہ کی خدمات کے اعزاز میں"روشنی کا مینار" ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اسی سال علاقہ ودربھ کے قابل ادیب، شاعر اور مصنف کے لیے "ودربھ رتن" ایوارڈ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ ان ایوارڈز کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
سوسائٹی کی جانب سے اب تک دو کامیاب مشاعروں کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔ پہلا الفاظ ہند مشاعرہ یوم اساتذہ کے موقع پر منعقد کیا گیا۔ ربانی آئی ٹی آئی کے سیمینار ہال میں ۵/ستمبر ۲۰۱۵ء کو بر صغیر کے معروف شاعر جناب مدحت الاختر صاحب کی صدارت میں منعقد کیا گیا۔ اس مشاعرے کی نظامت کے فرائض ماہنامہ قرطاس ناگپور کے مدیر جناب اشتیاق کامل صاحب نے بخوبی نبھایا۔ اس مشاعرے میں حق فیاضی، عارف جمالی، ڈاکٹر محمد اسد اللہ،سہیل عالم، نقی جعفری، ڈاکٹر ثمیر کبیر،ماسٹر توحید الحق، جمیل انصاری جمیل، رضوان رضوی اور منیش واجپائی نے بطور شاعر شرکت کی۔
اسی طرح دوسرا مشاعرہ 29جنوری 2016ء میں الفاظ ہند کی تیسری سالگرہ کے موقع پر جناب ظفر کلیم صاحب کی صدارت میں منعقد کیا گیا۔ اس مشاعرے کی نظامت جناب کلیم انصاری صاحب نے کی۔ اسی سال سوسائٹی نے 'محب الفاظ' اور' محسن الفاظ' ایوارڈز کا سلسلہ بھی شروع کیا۔
ریاض صاحب کی ادارت میں شہر کا اولین اور واحد ہندی ماہنامہ 'مدھیہ بھارت ٹائمز ' بھی اسی سال شروع کیا گیا۔ جو بہت ہی جلد ہندی دنیا میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔ اس کے اب تک ٢٠ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔
"کامٹی کا ادبی منظر نامہ "میں کتاب کے مصنف آغا محمد باقر (نقی جعفری ) ایک جگہ فرماتے ہیں۔
صحافت سے لے کر تعلیمی سرگرمیوں تک ریاض احمد امروہی ہر ہر قدم ریحان کوثر کے مدد گار و معاون رہتے ہیں۔ ریحان کوثر اور ریاض احمد امروہی کی جوڑی اگر اسی طرح سرگرم رہی تو ممکن ہے مستقبل میں یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیں جو اہل کامٹی کے لیے خوشی کا باعث ہو۔"
آج ریاض احمدامروہی، کامٹی کے سماجی، سیاسی اور ادبی منظرنامہ میں ایک معتبر نام ہے۔ اس وقت جناب ریاض احمدامروہی صاحب صدرکی حیثیت سے ودربھ مائنورٹی ملٹی پرپس رورل ڈیولپمنٹ ایجوکیشنل سوسائٹی میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔ وہ سوسائٹی اور ربانی آئی ٹی آئی و جونیئر کالج مینجمنٹ کمیٹی کے تمام امور کی دیکھ بھال کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ تمام امور میں تقریباً آخری مہر انہی کی ہوتی ہے۔
ریاض احمدامروہی کامٹی سے شائع ہونے والا اولین اور واحد ہندی ماہنامہ مدھیہ بھارت ٹائمز کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ انھوں نے ویسے تو ڈی ایڈ (ڈی ٹی ایڈ) ہندی میڈیم سے مکمل کیا، لیکن فی الوقت ملت اردو اپر پرائمری اسکول میں بطور معلم اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ نےموذن شکراللہ صاحب کے مہذب خاندان میں آنکھیں کھولی۔ شکراللہ صاحب آپ کے دادا جان تھے۔ موذن شکراللہ صاحب گورا بازار مسجد میں برسوں تک موذن کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ کے والد کا نام محمد یوسف اور والدہ کا نام نجم النسا ہے۔ آپ کے دادا کا مکان ایک دینی مکتب سے کچھ کم نہ تھا۔ علاقہ کی لاتعداد خواتین نے آپ کی دادی عائشہ بی سے عربی کی تعلیم حاصل کی ہے۔ مولانا محمد ممتاز عالم قاسمی صاحب امام و خطیب مسجد وزیر صاحب اور صدر،جمعیت علماء ہند، کامٹی آپ کے چچازاد بھائی ہیں۔ جناب ممتاز قاسمی صاحب شہر کے مذہبی، سماجی اور تہذیبی منظرنامہ پر ایک امید کی کرن کی شکل میں نمودار ہوئے ہیں۔ فی الحال ریاض صاحب اور ممتاز صاحب کے سماجی سرگرمیوں سے شہر کا ماحول کافی گرم ہے۔
آپ کے نانا شہر کے معززین میں شمار ہوتے تھے آپ کے نانا کا نام محمد صدیق (چمڑے والے ) تھا۔ ریاض صاحب کی ننہال اور ددیال دونوں ہی گھرانے مہذب اور صوم و صلوٰۃ کے پابند رہے ہیں۔ پرکھوں کے اثرات بلاشبہ وراثت میں ملا کرتے ہیں۔ لیکن اتنے با صلاحیت طریقہ سے ملتے ہوئے میں نے ریاض صاحب میں بخوبی دیکھا ہے۔ اپنی اس حیات میں صوم و صلوٰۃ کا ایسا پابند نہیں دیکھا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اسماعیل پورہ نگر پریشد اردو پرائمری اسکول سے حاصل کی اور ۱۹۸۹ ء میں چوتھی جماعت میں کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۹۵ء میں دسویں اور ۱۹۹۸ء میں بارہویں جماعت ایم ایم ربانی ہائی اسکول و جونیئر کالج سے پاس کی۔ ۲۰۰۱ء میں آپ نے نوپرتیبھا ڈی ایڈ کالج سے ڈی ایڈ کیا۔ ۲۰۰۴ء میں آپ کا تقرر رشیدیہ ہائی اسکول ناگپور میں بحیثیت معلم ہوا لیکن ۲۰۱۳ء میں اکسیس ہونے کے سبب آپ کا تبادلہ ملت اردو اپر پرائمری اسکول میں ہو گیا۔
ایک تو ریاض صاحب کی عمر کم ہے اور اس پر ستم یہ کہ اپنی عمر سے کافی کم عمر نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی ڈائریکٹر، صدر، اور مدیران وغیرہ اتنے کم عمر کے ہو تو کچھ لوگوں کی تنگ نظری اور گندی ذہنیت قبول ہی نہیں کرتی۔ وہ اپنے سفید بالوں کی سفیدی کو تجربات کی سند سمجھتے ہیں۔
جو وہ بہار ریاضِ خوبی چمن میں آ کر خرام کرتا
صنوبر و سرو ہر اک آ کر ادب سے اُس کو سلام کرتا
ریاض احمدامروہی شہر کامٹی سے ہی شائع ہونے والا اردو زبان کا واحد ماہنامہ الفاظ ہند کے نائب مدیر بھی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ریاض صاحب کے سخت فیصلے اور ان کا عزم و ارادے نہ ہوتے تو شاید کافی پہلے ہی ماہنامہ الفاظ ہند بند ہو جاتا۔ یہ ریاض صاحب کی دوراندیشی اور اردو سے ان کی حقیقی محبت ہی ہے جس کی وجہ سے ماہنامہ الفاظ ہند جاری ہے اور آج کامیابی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔
الفاظ ہند کا ایک مستقل اور کامیاب کالم "آپ کے سوال" ریاض صاحب بڑی خوبصورتی سے ترتیب دیتے ہیں۔ طلبہ و طالبات میں یہ کالم کافی مقبول ہے۔ اس کالم میں طلباء اپنے سوالات ریاض صاحب کو ارسال کرتے ہیں جس کے تفصیلی جوابات دیےجاتےہیں۔ اس کالم کے لیے بچے کسی بھی موضوعات پر سوال کر سکتے ہیں۔
ریاض صاحب نے میرے ساتھ مل کر مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف وکیشنل ایجوکیشن ایگزامینیشن کے نصاب پر مبنی کچھ کتابوں کی ترتیب دی ہے۔ ان کتابوں کو بورڈ کے ڈائریکٹر جناب ہستے صاحب سے کافی پذیرائی ملی۔ میری کتاب " کامٹی میری جان" کی ترتیب میں بھی ریاض صاحب کا اہم رول رہا ہے۔
گزشتہ سال انھوں نے کتاب "پھولوں کی زبان" کو بھی بہترین انداز میں ترتیب دی۔ ریاض صاحب نے اس کتاب میں پچھلے تین سالوں کی میری مطبوعات کو یکجا کیا۔ کتب کی طباعت اور اس کی اشاعت میں لگنے والے سارے اخراجات بھی انھوں نے ہی برداشت کیے۔ اس کتاب کی خوبصورتی اور معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اسے 'بلک پرچیس اسکیم کے تحت، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کو بھیجا گیا تو ڈیڑھ سو کتابوں کا مطالبہ کونسل کے ذریعے کیا گیا۔ جب کہ فی کتاب قیمت ۱۹۰روپے ہے۔ پھلوں کی زبان کی ترتیب کے دوران جناب پرویز انیس صاحب نے ریاض صاحب کے تعلق سے کچھ یوں فرمایا:
جب کوئی بچہ گھر میں گرتا ہے تو اس کی طرف بڑھنے والا سب سے پہلا ہاتھ اس کی ماں کا ہوتا ہے اور جب بچہ گھر کے باہر گرتا ہے تو اس کی طرف بڑھنے والا سب سے پہلا ہاتھ اس کے باپ کا ہوتا ہے، لیکن جب یہ بچہ بڑا ہوتا ہے اور کہیں گرتا یا لڑکھڑاتا ہے تو اس کی طرف بڑھنے والا سب سے پہلا ہاتھ اس کے دوست کا ہوتا ہے، اور اگر ایسا کوئی ہاتھ ہروقت کاندھوں پر ہو تو آدمی گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کرنے لگتا ہے۔
ایسا ہی ایک ہاتھ ریحان کوثر کے کاندھوں پر ریاض احمد امروہی کا ہے اور اس کے خوشگوار نتائج سے آپ لوگ بخوبی واقف ہے۔
فی الحال پرویز انیس صاحب کی کتاب "تجربات" کو بھی ترتیب ریاض صاحب دے رہے ہیں جو جلد ہی شائع ہونے والی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ مختلف تنظیموں سے بھی منسلک ہیں۔ آپ ودربھ ایم ایس بی وی ای ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنل ایسوسیشن کے سیکریٹری بھی ہیں۔ الفاظ پبلی کیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے ایک ہیں۔ ملت اسکول کے تعلیمی رسالے "نقوش دیوار" کی ادارت کے فرائض بھی ریاض صاحب بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
کبھی کبھی کسی کے تعلق سے کچھ لکھنا دشوار اس لیے ہو جاتا ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کہاں سے شروع اور کہاں ختم کریں۔ ایسی شخصیت دراصل ہمہ رنگ ہوتی ہیں۔ ریاض صاحب ان میں سے ایک ہیں۔
بس اتنا جان لیں کہ میں منظر ہوں اور ریاض صاحب میرا پس منظر ہیں۔۔۔
____________________
ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی- اگست ٢٠١٧ء
٭٭٭
0 Comments