Ticker

6/recent/ticker-posts

مجبوری اور فیصلہ

مجبوری اور فیصلہ
ریحان کوثر

سنڈے ایڈیشن میں ایک مضمون نظر سے گزرا "راہل گاندھی : ناکام سیاست کی طرف قدم" جو گزرے زمانے اور پس منظر کی ترجمانی کرتا نظر آیا۔ پڑھ کر ایسا لگا جیسے گزشتہ صدی کے آخری دہائی کا کوئی مضمون پڑھ رہا ہوں ، جب بابری مسجد پر مسلمانوں کے جذبات کو مختلف طریقوں سے ابھارا جاتا تھا ۔ لیکن آج (مئی ٢٠١٤ء کے بعد) اس مضمون کی کچھ باتوں سے میں متفق نہیں اس لیے کچھ لکھنے کی گستاخی کر رہا ہوں۔
ایسا ظاہر ہوتا ہے ،مضمون نگار کے دل و دماغ میں وی۔ پی۔ سنگھ کی "موہ مایا" آج
بھی بسی ہوئی ہے۔ وی ۔پی ۔سنگھ کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا گیا۔ شاید مضمون نگار کو نہیں معلوم کہ وی۔ پی۔ سنگھ آٹھویں دہائی میں کیجریوال اور مودی کا ایک پیچیدہ مجموعہ تھے۔ انتخابی جلسوں میں ا پنی جیب سے ایک کاغذ کا پرزہ نکال کر بوفورس کے ثبوت دکھاتے تھے ۔ اقتدار میں آنے کے بعد وی۔ پی ۔سنگھ نے وہ ثبوت اسی تجوری میں محفوظ کردیا جہاں آج، دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کی ٣١٥ صفحات کی فائل رکھی ہوئی ہے۔ وی پی سنگھ بے شک مسلمانوں کے ہیرو ہیں، لیکن ان مسلمانوں کے ہیں جو کانگریس کو ووٹ نہ دینے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور ادھر ادھر بھٹکتے نظر آتے ہیں۔
مضمون نگار کے مطابق راجیو گاندھی نے رام مندر اور ایودھیا پر سیاسی چال چلی جو ناکام رہی ۔ یہ ایک ناکام سیاست اس وقت مانی جاتی جب راجیو گاندھی اس سیاست کے نتائج دیکھنے کے لیے زندہ ہوتے ۔ اس مضمون میں راہل گاندھی کے اقتدام کو ناکام سیاست کی طرف قدم کہا گیا۔ کیا بنا اترپردیش الیکشن کے نتائج کے اسے ناکام قرار دینا ٹھیک ہے ؟ گانگریس کی چال کا ذکر کیا ہے ۔ کیا ایک سیاسی جماعت کو اس طرح کی چال چلنے کا کوئی حق نہیں ؟ آج کون چال نہیں چل رہا ؟ کیا ہمارے وزیراعظم کوئی چال نہیں چلتے؟ وزیراعظم نریندر مودی نے تو شطرنج کا مقابلہ انعقاد کیا ہوا ہے ۔ ان کے چال چلن پہ تو پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ کیا کیجریوال کو پتا نہیں ان کے اور نجیب جنگ کے حقوق کیا ہے ؟ پھر بھی عوام کو نئی طرز کی چال اور فریب سے بے وقوف بنایا جا رہا ہے ، اپنے آپ کو مظلوم بتانا کیا ایک سیاسی چال نہیں؟
اگر راہل گاندھی نے ہنومان گڑھی کے مہنت سے ملاقات کر لی تو اس میں گیا غلط کیا ؟ مہنت سے ملاقات راہل نہ کرے تو کیا یہ ملاقات غلام نبی آزاد یا سلمان خورشید کو کرنی چاہئے؟ مئی ٢٠١٤ء کے بعد بھی کچھ لوگ چاہتے ہیں کانگریس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہے۔ کیا ہندوؤں (سیکولر)کو رجھانے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کا حق کانگریس کو نہیں ؟ کیا کانگریس رام راج کا وعدہ نہیں کر سکتی ؟ اور نہیں ! تو کیوں نہیں ؟ کیا کانگریس مسلم پارٹی ہونے کا تمغہ لیے پھرتی رہے؟ اور ١٥ فیصد مسلم ووٹوں پر ہی اپنی سیاسی زمین تلاش کریں ؟ جبکہ اس ووٹ بینک پر ڈاکہ ڈالنےوالوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ باقی سبھی سیکولر جماعتوں کے سربراہ ، ملایم سنگھ یادؤ ، لالوپرشاد یادؤ ، نتیش کمار، شرد پوار وغیرہ سنٹری منٹری، سادھو سنت سے مل سکتے ہیں، بس راہل گاندھی یا کانگریس نہیں! ایسا کیوں ؟ صرف کانگریس پر بندش کیوں؟
ہندوستان کی ریاستوں میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ جہاں جہاں گزشتہ بیس تیس برسوں میں کانگریس کی پانچ ، دس یا پندرہ سالوں تک حکومتیں رہی ہیں وہاں مسلمانوں کی حالت بہت خراب نہیں اور ریاستی سرکاری نوکریوں میں تناسب ٹھیک ٹھاک ہے، مثلاً مہاراشٹر ، کیرلا ، آسام ، ہریانہ ، کرناٹک ، آندھرا پردیش (تلنگانہ ، آندھرا ) اور ہماچل پردیش وغیرہ ۔ اور یہاں ترقیاتی کام بھی ہوئے ۔ بدترین حالات تو وہاں ہے جہاں جہاں جنتا دل اور وی پی سنگھ کی اولادوں کی حکومتیں رہی ہیں ۔ اترپردیش اور بہار جہاں مسلم تناسب اور تعداد میں بہت زیادہ ہے وہاں مسلمانوں کے حالات بدترین ہے۔ یہاں ایک بات واضع کر دوں کہ میں بد اور بدترین میں موازنہ کر رہا ہوں ۔ اترپردیش ، بہار ، مغربی بنگال اور اڑیسہ میں برسوں سے کانگریس کی حکمت نہیں ! تو کیا یہاں کی حکومتوں نے مسلمانوں کو کون سے سرخاب کے پر لگادیے؟
مغر بی بنگال میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 27فیصداور غیر سرکاری ذرائع کے مطابق 30فیصدآبادی مسلمانوں کی ہے۔ مسلم اکثریتی اضلاع کا دورہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان اب بھی کئی ہزار سال قدیم طرزکی زندگی بسر کررہے ہیں، گرتے ہوئے بوسیدہ مکانات، دیہی علاقوں میں ٹٹے اور مٹی کے گھروں اور جھوپڑیوں میں رہتے ہیں۔ آبادیوں میں میلوں کوئی لائٹ نظر نہیں آتی۔ 70فیصداسکولی بچے آج بھی بغیر چپل اور شرٹ کے اسکول جاتے ہیں، اسکولوں میں کوئی فرنیچر نہیں ہوتا، کئی اسکول تو درختوں کے سایہ میں چلتے ہیں۔ مسلمانوں کی دیہی علاقو ں میں 47% آبادی زراعتی اور غیر زراعتی مزدوری کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ مغربی بنگال کے مسلمانوں کی 80% فی خاندان آمدنی ۵ہزار روپیہ ماہانہ ہے اور دیہی علاقوں میں 38.3%خاندانوں کی دیہی علاقوں میں صرف 2500روپیہ ماہانہ ہے ۔ اس سے برا حال بہار، اڑیسہ اور اترپردیش کا ہے! یہ وہ ریاستیں ہیں جو "کانگریس مکت " ہے۔ مگر حالت بدترین ہے ۔بے شک سیکولر پارٹیوں میں آج بھی کانگریس ہی سب سے ٹھیک ٹھاک انتخاب ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کانگریس تو مجبوری ہے مسلمانوں کے لیے ۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ انسان مجبوری میں ہمیشہ غلط فیصلہ ہی لیتا ہے؟
__________________
تاج ویکلی، کامٹی ، جون ٢٠١٧ء
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments