کامٹی میری جان
ریحان کوثر
١٠ جنوری ٢٠١٦ء
تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں۔ تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں اَرخ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن (عرصہ / وقت وغیرہ) لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ، جامع انسانی حالات کے انفرادی و اجتماعی اعمال و افعال اور کردار کی آئینہ دار ہے۔ تاریخ، انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمذنِ انسانی کا کارواں رواں، دواں رہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس کے توسط سے افراد و قوم،ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ اور نا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نطر ڈال کر اپنے حال و مستقبل کو اپنے منشا و مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ قصے کہانیوں سے شروع ہو کر آج تاریخ اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اسے تمام علوم انسانی کی روح رواں کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اجتماع انسانی کے جس شعبے میں کوئی واقعہ پیش آتاہے وہ کسی نہ کسی طرح تاریخ گزشتہ سے مربوط ہوتا ہے، اس لئے یہ کہا جائے کہ تاریخ سے سب کچھ ہے اور سب کچھ تاریخ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
مجھے اس بات علم اور احساس بخوبی ہے کہ "کامٹی میری جان"شائع ہوتے ہی ایک مخصوس دور کی تاریخی دستاویزات میں شامل ہو جائے گا۔ میں نے غیر ضروری باتوں سے اجتناب کیا ہے۔ ایسی باتیں، جو تحریرکو خوبصورت تو بنا دیتی ہیں لیکن اس کی روح کو ختم کردیتی ہیں۔ میرے خیال سے اس طرح کی کوشش آج تک شاید ہی اس شہر میں کسی نے کی ہو۔ مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ کافی سرگرمیاں مجھ سے چھوٹ گئی ہیں۔ انشاءاللہ آئندہ جلدوں میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔یہ کتاب درحقیقت سال بھر کی تحقیق، تلاش اور جستجو کا نتیجہ ہے جو ”کامٹی میری جان“ کی شکل میں پیش کی جارہی ہے، اس کے ماخذ کی فہرست پر اجمالی نظر ڈالنے والا بھی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ اس کی تالیف میں کس قدر محنت اور عرق ریزی سے کام لیا گیا ہے۔
اس کتاب کی تصنیف کے دوران میں نے مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کی ہیں جن میں لوکمت سماچار، دینک بھاسکر اور ماہنامہ الفاظ ہند اہم ہیں۔ اس کتاب کی تالیف و اشاعت کے دوران میرے دوست ریاض احمد امروہی اور محمد ایوب صاحب نے پوری دیانت داری اور خلوص سے میری مدد کی ہے۔خصوصیت کے ساتھ محمد ایوب صاحب نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ معیاری بنانے میں اپنی تمام کوششیں صرف کردی ہیں۔دعا ہے کہ پروردگار ان کا سایہ تا دیر ہم پر قائم رکھے اور ہم ان سے اسی طرح استفادہ کرتے رہیں۔
میں محترم محمد ایوب صاحب اور اپنے فعال ساتھی ریاض احمد امروہی کے لئے میں دست بدعا ہوں کہ یں لوگوں کی رہنمائی اور دوڑ دھوپ ہی میرے لئے طباعت و اشاعت کے سارے مراحل کو آسان بنادیتی ہے۔جس کے لیے میں دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
0 Comments