سیرت النبیؐ پر بین المدارس تقریر ی مقابلے کا انعقاد
اور نمایا ںشخصیات کا اعزاز
کامٹی :اُفق
ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کامٹی کی جانب سے بین المدار تقریری مقابلہ بعنوان
’’اُسوۂ حسنہؐ پر عمل ہی انسانیت کی معراج ہے‘‘ منعقد کیا گیا۔ جلسے کی صدارت
ڈاکٹر ارشد جمال صاحب نے کی۔ ڈاکٹر یٰسین قدوسی صاحب، محمد حفظ الرّ حمن صاحب،
ڈاکٹر محمد اظہر حیات صاحب، ڈاکٹر احفاظ انصاری اور سوسائٹی کے صدر کلیم اختر
انصاری بطور مہمانانِ خصوصی شرکت فرماتھے۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ کلامِ ربانی سے
درخشاں انجم نے کیا۔نعت شریف کا نذرانہ عرشیہ فاطمہ نے پیش کیا۔اس مقابلے میں
ناگپور و کامٹی کی مختلف اسکولوں کے طلبہ وطالبات نے حصّہ لیا۔ پہلا انعام ایم۔ایم
ربانی ہائی اسکول کے طالب علم مزمل اطہر انصاری محمد مشتاق نے حاصل کیا۔ دوسرا
انعام خدیجہ بائی گرلس ہائی اسکول کی طالبہ فارعہ جمال اقرار احمدنے حاصل کیا۔ نیز
ترغیبی انعام مجیدیہ گرلس ہائی اسکول ناگپور کی طالبہ عائشہ پروین محمد شکیل کو
دیا گیا۔
اس موقع پر ملک کے مشہور
ومعروف شاعر ڈاکٹر مدحت الاختراور ناگپور یونیورسٹی میں اردو بورڈ آف اسٹڈیز کے
صدر ڈاکٹر اظہر حیات کا بطور خاص استقبال کیا گیا۔ ڈاکٹر مدحت الاخترکو اردو زبان
اورشعر وادب میں غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں جبکہ ڈاکٹر اظہر حیات کو نمایا ں
تعلیمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں خصوصی اعزاز وسپاس سے نوازا گیا۔
اس تقریری مقابلے میں
ڈاکٹر جاوید احمد، ڈاکٹر رفیق اے۔ ایس۔ محمد ایوب صاحب نے بطور جج اپنی خدمات
انجام دیں۔اس موقع پر جماعتِ اسلامی ہند مہاراشٹر کے رضوان الرحمن خان صاحب نے
جلسہ سے خطاب کیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ماسٹر توحید الحق نے بخوبی انجام دیئے۔
تقریب کی غرض و غایت اور ہدیۂ تشکر سوسائٹی کے سیکریٹری محمد عامر آفاق نے پیش
کیا۔ مہمانوں کا استقبال نائب صدر پروفیسر محمد اسرار، جوائنٹ سیکریٹری راشد جمال،
خزانچی نورمحمدانصاری نے کیا۔ تقریب کو کامیاب بنانے میں انصاری شاہدہ کلیم صاحبہ
(میونسپل کونسلر)، سوسائٹی کے اراکین تحسین اختر، اظہر صادق، شہنواز انصاری، محمد
عمیر آفاق، نفیسہ محمد اسرار، عصمت کوثر، نیز ڈی ایڈ کالج کے پرنسپل ابرار خان نے
اہم کردار ادا کیا۔
اس تقریب میں شہر کی
معزز شخصیات اور طلبہ وطالبات بڑی تعداد میں شریک تھے۔
از : محمد عامر
آفاق
(سیکریٹری، اُفق ایجوکیشن اینڈ
ویلفیئر سوسائٹی کامٹی)
جن
شخصیات کو اعزاز و سپاس سے نوازا گیا، تقریب میں ان کے تعارف میں جو باتیں بیان کی
گئیں،ان کا اجمالی ذکر الفاظ ہند کے قارئین کے پیش خدمت ہے -
مدحت الاختر۔۔۔۔ ایک عمومی تعارف
تحریر و پیش کش :
محمد عامر آفاق
(سیکریٹری، اُفق ایجوکیشن اینڈ
ویلفیئر سوسائٹی کامٹی)
محترم ڈاکٹر مدحت الاختر
صاحب کے فن اور شخصیت پر حال ہی میں ’مدحت الاختر۔ شخص اور شاعر‘ نامی ضخیم کتاب شائع ہوئی ہے۔ جسے ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی نے مرتب
کیا ہے۔ اسی کو سامنے رکھ کر میں نے موصوف کے بارے میں کچھ تعارفی کلمات کہنے کی
کوشش کی ہے۔ اسے چھوٹا منہ اور بڑی بات بھی کہہ سکتے ہیں۔
محمد مختار ابن حافظ رحمت اللہ کو دنیا ئے شعروادب مدحت الاختر کے نام سے
جانتی ہے۔ کامٹی کی مٹی شعروادب کے لحاظ سے خاصی زرخیز رہی ہے۔ ماضیِ بعید اور
ماضیٔ قریب میں بھی ایسی شخصیتیں اٹھی ہیں جنھوں نے اطراف وجوانب اور ملک کے بیشتر
حصّوں اور خطّوں میں اپنی شعری و ادبی شناخت بنائی ہے۔ موجودہ دور میں بھی کئی اہم
شعر اء نے نام کمایا ہے۔ فی الوقت ان میں مدحت الاختر کا شمار اردو کے معاصر غزل
گو شعراء کی صف ِ اوّل کے ممتاز شاعروں اور تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ یہ اپنے کلام
کی خصوصی صفات کے باعث اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے شعروادب کی سمت
ورفتار کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ اپنی فطری، غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ساتھ
ہم عصر تحریروں کے مطالعے اور ماقبل ادبی اثاثے کی شناخت اور احترام کی وجہ سے ان
کی شخصیت میں ادب وتخلیق کے سلسلے میں وقار اور استحکام کی خوبیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
’منافقوں میں روز وشب‘ ’میری گفتگو تجھ سے ‘ اور ’ ارتبا ط‘ ان کے باوقار
شعری مجموعے ہیں۔ اُن کی یہ شعری کاوشیں یقینا اس لائق ہیں کہ باربار پڑھی جائیں
تاکہ زبان و بیان پر اُن کی گرفت، خیال کی ندرت، زورِکلام، الفاظ کی روانی، خوبیٔ
معنی اور فکر کی بلندی کا صحیح ادراک ہوسکے۔
ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں ڈاکٹر مدحت الاختر جیسے بلند قامت شاعر، محقق
اور معلّم کے بارے میں کوئی قطعی رائے نہیں دے سکتا۔
محمد حفظ الرّحمن اور علیم اللہ حالی کی تحریروں سے
اِستفادہ کرتے ہوئے کچھ باتیں کہنے کی کوشش کی ہے۔
سماج کے ادبی ٹھیکیدار وں کے غیر ادبی رویےکا پردہ فاش کرتے ہوئے مدحت
الاختر کہتے ہیں ؎
اسے انعام سے ہم کیوں نواز یں وہ
شاعر ہے مگر مرحوم ہے کیا ؟
ہم تخلیق کار کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جب وہ اس دنیا میں نہیں رہتا تو
ہم اس کا گن گان کرتے ہیں اسی لیے شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ’ہم نہ ہوں گے تو بہت یا دکرے گی
دنیا‘ مَیں یہ کہنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا لیکن میں اور ہماری ٹیم نے اس روایت
کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ اسی سلسلے کی یہ پہلی کڑی ہے کہ ہم اپنے بزرگ قلم کاروں،
تخلیق کاروں کا ان کے جیتے جی اعزاز واکرام کرکے ان کی خدمات کا قرارِ واقعی
اعتراف کریں۔ شہر کی ادبی دنیا کی طرف سے اگر ہم یہ فرضِ کفایہ ادا کرسکے تو ہماری
خوش بختی ہوگی۔
انھیں الفاظ کے ساتھ میں محترم ڈاکٹر مدحت الاختر صاحب کا استقبال کرتا
ہوں۔
(جشن
عیدمیلاالنبیؐ کی تقریب منعقدہ، مورخہ ١٠ ؍جنوری٢٠١٥ء کے موقعے پر محترم ڈاکٹر
پروفیسر مدحت الاختر کے ’’اعزازو سپاس‘‘ کے وقت یہ تعارف سامعین کے سامنے پیش کیا
گیا۔)
ڈاکٹر محمد اظہر حیات۔ ۔۔ ایک مختصر تعارف
تحریر و پیش کش :پروفیسر محمد اسرار
)نائب
صدر، اُفق ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کامٹی(
ڈاکٹر اظہر حیات صاحب نہ صرف شہر ناگپور بلکہ علاقۂ
ودربھ کی ایک معروف علمی وتحقیقی شخصیت ہیں۔ آپ نے ابتدا میں ملک سے باہر ملازمت
کی۔ لیکن جلد ہی ملک واپس آگئے اور تعلیمی شعبہ سے وابستہ ہوگئے۔ علاقۂ ودربھ کی
معروف شخصیت حافظ و لایت اللہ حافظ ؔپر پی۔ایچ۔ڈی کی۔ ناگپور کا مشہور تعلیمی
ادارہ یشوداگرلز کالج آف آرٹس اینڈ کامرس کی جب بنیاد ڈالی گئی تو آپ اس سے
وابستہ ہوگئے اور اہم بات یہ ہے کہ اس کالج میں سب سے پہلا داخلہ اردو کی طالبہ کا
ہوا۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد سفر حج کے تجربات
پر کتاب لکھی۔ حافظ ولایت اللہ کی سوانح لکھی۔ کئی تحقیقی مضامین لکھے۔ آپ کی
رہنمائی میں کئی طالب علموں نے اپنے تحقیقی مقالے مکمل کرکے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری
حاصل کی۔ ابھی بھی آپ کی نگرانی میں کئی طالب علم اپنا تحقیقی کام مکمل کرنے میں
لگے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے بی۔اے اور ایم۔ اے اردو کے لیے اہم کتابیں ترتیب دی ہیں۔
’شعور ِا دب‘ حصّہ اوّل و حصّہ دوّم، ودربھ میں جدید اردو شاعری وغیرہ۔ اس کے
علاوہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے اشتراک سے پہلی بار ٢٠١١ء میں اور دوسری بار ٢٠١٤ء
میں نیشنل کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا۔ دونوں ہی موقعوں پر شاندار مجلہ شائع
کیا۔ آپ کالج میں شعبۂ اردو کے ابتداء سے ہی صدر رہے۔ اس کے علاوہ ناگپور
یونیورسٹی کی کئی اہم کمیٹیوں کے رکن بھی رہے۔ مثلاً لابئریری کمیٹی، اکیڈمِک
کاؤنسل، بورڈ آف اسٹڈیز کے چیئرمین وغیرہ اور سب سے اہم یہ کہ آپ یونیورسٹی کی
اُس کاؤنسل کے بھی رکن رہے جو کالج شروع کرنے کی درخواست قبول کرتی ہے اور اُس کی
جانچ کرتی ہے۔
ہم
سب اچھی طرح واقف ہیں کہ ابھی دوسال پہلے تک ناگپور یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کا
وجود نہیں تھا۔ اسے قائم کرنے کے لیے اہم اورنمایاں کردار ادا کیا۔ اللہ کا شکر ہے
کہ آج شعبۂ اردو بحسن و خوبی شروع ہے۔ آپ حال ہی میں طویل تعلیمی خدمات انجام
دینے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ ہماری خوش نصیبی کہ ہمیں آپ کااعزازکرنے
کا موقع مل رہا ہے۔ میں ہماری سوسائٹی کے تمام عہدےدارین و اراکین کی جانب سے آپ
کا استقبال کرتا ہوں۔
٭٭٭
0 Comments