Ticker

6/recent/ticker-posts

آنگن کے پھول ✍️سہیل اختر

آنگن کے پھول
✍️سہیل اختر، کامٹی
الحمد لا ھلہ و ا لصلو علی اٰھلھلااٰمابعد قال الله تبارک و تعالیٰ و عاشروھن بالعروف۔ (البقرہ)
ترجمہ :اور اپنی بیویوں کے ساتھ حسن ِسلوک کرو۔
قال ا لنبی صلی الله علیہ وسلم: خیرکم خیرکم لا ھلہ (جامع الصغیر ١٠ : ج ٢)
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا ہو۔

قارئین کرام! آج کے اس گلوبلائزیشن کے دور میں ہر شخص ترقی اور کامیابی کامتلاشی ہے، ہر چیز ہر کام اور ہر فیلڈ میں "بیسٹ کوالٹی " اور "بیسٹ سروس" کی مانگ اور ڈیمانڈ ہے۔ اس کی کوشش اور کاوش بھی ہوتی ہے اور یہ قابل تعریف بھی ہے۔
مگر اسی کے ساتھ اگر ہم اپنی معاشرتی اور روز مرہ کی زندگی کا سرسری طور پر جائزہ لیں تو خود ہمیں محسوس ہوگا کہ ہم ایک نہ کام اور ہاری ہوئی زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ ہم نے اپنی زندگی کا نہ کوئی آئیڈیل بنایا، نہ کوئی معیار طے کیا، اورنا ہی کوئی مقصد متعین کیا ہے، اگر ہم نے زندگی کا معیار دینی رکھا ہوتا آئیڈیل حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کو بنایا ہوتا، اور مقصد الله پاک کی رضا کو بنایا ہوتا، تو آج ہماری معاشرتی، اخلاقی معاملاتی ازدواجی اور خانگی زندگی کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ہم ایک کامیاب پرسکون زندگی گزار رہے ہوتے۔
چوک کہاں ہو رہی ہے؟
آج ہم نے دین اسلام، سنت رسول، اور رضاء الہیٰ کو صرف مسجد کی چار دیواری اور عبادت تک ہی محدود کر دیا ہے، اور جو لوگ کچھ دیندار سمجھے جاتے ہیں وہ کھانے پینے، سونے جاگنے، استنجا بیت الخلاء اور مسجد آنے جانے کی سنتوں پر بھی عمل کر لیتے، لیکن معاشرت کا ایک بہت بڑا باب ہے حقوق زوجین میاں بیوی کا آپس میں حسن معاشرت کا قائم کرنا، زوجین میں آپسی محبت و الفت کا ہونا، آپسی معاشرت کا مضبوط ہونا، ہمارے گھروں اور خاندان کا مثالی نمونہ بننا۔
میاں اور بیوی کی ازدواجی زندگی ہمارے معاشرے کا ایسا پواینٹ اور مرکزی کیل ہے جس پر پورے معاشرے کی چکی گھومتی ہے۔ پورے معاشرے کے بننے اور بگڑنے کا مدار اس زندگی پر ہوتا ہے۔ازدواجی زندگی ہی ایک صالح اور اچھے معاشرے کی تعمیر کے لئے بنیادی اینٹ ہے، جس معاشرے میں گھریلو اور ازدواجی نظام برباد ہو جائے وہ معاشرہ کبھی بھی کامیاب اور ترقی کی منزل نہیں پا سکتا کیونکہ ان گھریلو زندگی ہی سے وہ اولاد اور نسلیں وجود میں آتی ہیں جسے آگے چل کر معاشرہ کا حصہ بنا ہوتا ہے، تو جب میاں بیوی کے تعلقات ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں تو ازدواجی زندگی سے چین و سکوں، اطمینان و راحت رخصت ہو جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں طلاق اور خلع کے واقعات سننے میں آتے ہیں، اور جہاں طلاق اور خلع نہیں ہوگا وہاں روزانہ لڑائی جھگڑا ہو گا۔ آپس کا اعتماد ختم ہو جائےگا، اور اسکا سب سے بڑا نقصان جو ہوگا وہ یہ ہے کہ آنے والی نسلیں جو ہر قوم کا مستقبل ہوتی ہے خاندانوں کی نیک نامی اور عزت کا باعث ہوتی ہے، اسے صحیح تربیت کرنے والے والدین نہیں مل سکیں گے، پھر اس معاشرے کو اچھے بچے نہیں ملیں گے، اچھے نوجوان نہیں ملیں گے، خوش اخلاق با کردار اور ہر اعتماد جوان نہیں مل سکیں گے، بلکہ بد اخلاق بد کردار بے اعتماد اور احساس کمتری و محرومی کی شکار نسل کےتعفن سے پورا معاشرہ گھٹن محسوس کریگا، اور اس کی ذمہ داری صرف اور صرف ہم پر عائد ہوگی۔
مرض لاعلاج کی دوا:
اس لئے ایک اچّھے صالح اور پاکیزہ معاشرہ کی بنیاد رکھنے اور اسے ترتیب دینے کے لئے ہمیں قدسی صفات، معلم اخلاق،رسالتمآب صلّی الله علیہ وسلّم کی حیات جمیلہ سے گل بوٹے تلاش کر کےاپنی زندگی کی ویرانیوں کو آباد و شاداب کرنا ہوگا –تو آیئےدربار رسالت کے جھروکے سے ایک صالح اور پاکیزہ ازدواجی زندگی کے لئے موتی چنتے ہیں–
 امی جان حضرت عائشہ رضی الله عنہافرماتی ہیں کہ حضورصلّی الله علیہ وسلّم جب بھی گھر میں تشریف لا تے تو آپ کےچہرہء انور پر مسکراہٹ ہوا کرتی تھی-
 لہٰذا ہم گھر میں داخل ہوتے وقت اگر چہرے پر مسکان بکھیر لیں تاکہ اس مسکان کو دیکھ بیویکا دل بھی مسکرا اٹھے تو یہ دنیا کے نفع کے ساتھ ساتھ سنّت پر بھی عمل ہو جائے گا –اور ایک مرتبہ حضور صلّی الله علیہ وسلّم نے بیوی کی دلجو ئی اور اظہار محبّت کا حق ہی ادا کردیا، امی جان حضرت عائشہ رضی الله عنہافرماتی ہیں
ایک مرتبہ حضور صلّی الله علیہ وسلّم دروازہ پر تشریف لائے اور میں پیالے میں پانی پی رہی تھی مجھ پر نظر پڑتے ہی آپ صلّی الله علیہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا حمیرا ! ( آپ صلّی الله علیہ وسلّم، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو لاڈ سے حمیرا بلاتے تھے ) جہاں سے تم نے لب لگا کر پانی پیا ہے وہاں نشان لگا دو میں بھی وہیں لب لگا کر پانی پیوں گا۔
دیکھئے اس واقعہ میں بھی واضح طور پر ہمیں دوسبق ملتے ہیں ایک تو بیوی کو لاڈ پیار سے اچھے نام سے بلانا، اور دوسرا اسکی دلجوئی کے ساتھ اظہار محبت کرنا، یہ چیریں آپسی محبت و الفت کے بڑھنے کے اسباب ہیں اور سنت پر عمل ستزاد ہے
بیوی سے مذاق اور دل لگی کرنا بھی سنت ہے:
اس طرح آپ صلّی الله علیہ وسلّم اپنی بیویوں سے مذاق اور دل لگی بھی فرمایا کرتے تھے حیا ت الصحابہ میں ابن عساکر اور کنز العمال کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ حضور صلّی الله علیہ وسلّم نے اپنی ایک زوجہ محترمہ کو ایک کھلا کپڑا پہنے کو دیا اور فرمایا کے اسے پہن لو اور الله کا شکر ادا کرو اور نئی دلہن کی طرح اس کا دامن گھسیٹ کر چلو، ذرا سوچئے کھلا کپڑا بھلا پہننے کے قابل ہوتا ہے ؟ تو پھر اسے دے کر دلہن کی طرح پہننے اور چلنے کے لئے کہنا مذاق اور دل لگی نہیں تو اور کیا ہے،
ایک اور وقفہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان فرماتی ہیں، کہ میں حضور صلّی الله علیہ وسلّم کے ساتھ ایک سفر میں تھی میں نے دوڑ میں حضور صلّی الله علیہ وسلّم سے مقابلہ کیا تو میں حضور صلّی الله علیہ وسلّم سے آگے نکل گئی پھر جب میرا جسم بھاری ہو گیا تو میں نے پھر آپ صلّی الله علیہ وسلّم سے دوڑ میں مقابلہ کیا لیکن اس مرتبہ حضور صلّی الله علیہ وسلّم مجھ سے آگے نکل گئے اور آپ صلّی الله علیہ وسلّم نے فرمایا میری یہ جیت تمہاری اس جیت کے بدلے میں ہے (مشکوٰۃ)
دوستو! اگر سیرت پاک کے اس طرح کے نمونوں کو ہم اپنی ازدواجی زندگی میں عملی طور پر لانا شروع کر دیا تو انشاءاللہ العزیز ہماری ازدواجی معاشرتی اور گھریلو زندگی چین و سکوں، راحت و اطمینان کے ساتھ گزرے گی، پھر ہمارا گھر جنت نشان ہوگا بیوی اس جنت کی حور شوہر جنت کا سردار اور بچے جنت کے پھول معلوم ہوں گے۔
وما ذالک علی الله لعزیز
نہیں نو مید اقبال اپنی رکشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments